2022 کا سال صحافت کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا

2022 کا سال صحافت کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا
گزرا سال پاکستان کی صحافت اور صحافیوں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ثابت ہوا۔ سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے، اپنے پیشے بدلنے پڑے، روزی روٹی کمانے کے لئے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے بیرون ملک ہجرت کرنی پڑی۔ یوں تو وطن عزیز کے 75 سال کبھی بھی اہل صحافت کے لئے اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ ہر آنے والی حکومت وزارت اطلاعات و نشریات کے شکنجے کے ذریعے صحافت کو ایک دائرے میں قید رکھنا چاہتی ہے مگر گزرا سال تو بہت ہی بھیانک ثابت ہوا۔ مکس اچار حکمران اتحاد اور ان کے سہولت کار اہل صحافت پر قہر بن کر ٹوٹے۔

سب سے بڑا واقعہ ارشد شریف کی شہادت تھا جس نے پاکستان کی صحافتی تاریخ کے سب سے خوفناک قتل کی تاریخ رقم کر دی گو کہ اس سے پہلے بھی سلیم شہزاد اور بابر ولی کے قتل ہو چکے مگر ارشد شریف کے قتل نے نہ صرف پاکستان کی صحافتی برادری بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور پھر ان کی والدہ نے جس طرح سپریم کورٹ میں جا کر جن سابقہ فوجی اعلیٰ عہدیداروں کے نام لیے ییں وہ بھی ایک غیر معمولی بات ہے۔ پھر جس طرح ارشد شریف کے جسدِ خاکی کی اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے ان کے گھر تک اور تدفین تک جس طرح پاکستان کے عوام نے اپنے ہیرو کو الوداع کہا وہ بھی تاریخ کے اوراق پر لکھا جا چکا ہے۔

ارشد شریف کی شہادت گزرے سال کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ جس طرح مکس اچار حکمران اتحاد اور ان کے سہولت کاروں نے اس دلیر صحافی کے قتل پر بے حسی کا مظاہرہ کیا وہ نوشتہ دیوار ہے۔ ایک دن میں جس طرح ارشد شریف شہید پر پورے ملک میں مقدمات درج ہوئے اور جس طرح ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور پھر بعد میں متحدہ عرب امارات کی حکومت پر دباؤ ڈال کر ارشد شریف شہید کو وہاں سے بھی نکلنے پر مجبور کیا گیا، سب کچھ عوام کے دلوں پر نقش ہو چکا ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ ارشد شریف شہید کی بوڑھی ماں کو انصاف فراہم کرے گی۔

پھر صابر شاکر کو آف ایئر کیا گیا، ان پر مقدمے درج ہوئے، وہ بھی بیرون ملک چلے گئے۔ عمران ریاض کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ شہر شہر کی عدالتوں میں پیش ہو کر ضمانتیں کرواتا رہا۔ جمیل فاروقی کو اٹھایا گیا، اسے برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایاز امیر جیسے صاحب علم دانش ور پر حملہ کیا گیا۔ ان کو اس کیس میں گرفتار کیا گیا جہاں وہ جائے وقوعہ پر تھے ہی نہیں۔ سمیع ابراہیم پر مقدمے درج ہوئے۔ عارف حمید بھٹی کو آف ایئر کیا گیا۔ بول ٹی وی، اے آر وائی نیوز کو بند کیا گیا۔ کیا کیا حشر تھا جو صحافت پر گزرے سال میں نہیں برپا کیا گیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ صحافت نے یہ سب کیوں برداشت کیا؟ صحافی کا کام سوال اٹھانا ہوتا ہے۔

جب گزرے سال میں مبینہ طور پر آپریشن رجیم چینج ہوا تو اہل صحافت کی طرف سے سوال اٹھائے گئے۔ جن پر فرد جرم عائد ہونی چاہئیے تھی ان کو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ نیب ترامیم کے ذریعے مکس اچار حکمران اتحاد کے رہنماؤں کے مقدمے ختم کئے گئے۔ مہنگائی کا طوفان پاکستان کے غریب عوام پر نازل کر دیا گیا۔ ان سارے عوامل پر صحافی سوال اٹھاتے تھے جس کے باعث وہ زیر عتاب آئے۔ اگر وہ اس مکس اچار حکمران اتحاد کے گن گاتے تو ان تمام صحافیوں جن کے نام سطور بالا میں لئے گئے، انہیں اب تک کئی مراعات مل چکی ہوتیں۔

2022 تو پاکستان کی صحافتی تاریخ کا بد ترین سال رہا۔ بہت سے سوالات سابق فوجی قیادت پر اٹھے۔ اب نئی فوجی قیادت نئے سال میں اپنی ساکھ کیسے بحال کرتی ہے یہ دیکھنا پڑے گا۔ مکس اچار حکمران اتحاد اس سال الیکشن میں جاتا ہے کہ نہیں۔ ابھی تک مکس اچار حکمران اتحاد کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اسلام آباد میں اور پیپلز پارٹی کراچی میں شکست کے خوف سے بلدیاتی انتخابات سے بھاگ رہی ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کروا چکی ہے۔ اسی سچائی کو رپورٹ کرنے پر پاکستان کی صحافتی تاریخ کے گزے بدترین سال کا نوحہ ہر جگہ لکھا جائے گا۔

ہم غالب کے اس مصرعے اور امید کے ساتھ 2023 کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔