خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری
سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور سیاسی سرگرمیوں کا بڑا نام تھا۔ ان کا صحافتی سفر مساوات اخبار سے شروع ہوا اور مساوات اخبار پر ہی ختم ہوا۔ درمیان میں وہ لشکر، خبریں اور آج کل اخبار میں بطور ایڈیٹر کام کرتے رہے۔ بزنس پلس اور چنیل 5 میں بھی کام کیا۔

خالد چودھری کی ساری زندگی مساوات قائم کرنے کی جدوجہد میں گزری۔ سماجی انصاف کی فراہمی اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ ان کا خواب تھا۔ بائیں بازو کی سیاست کا علمبردار، مارکس اور لینن کے نظریات کا پرچارک اور ذوالفقار علی بھٹو کا جیالا خالد چودھری جہاں بھی ناانصافی دیکھتا، صدائے حق بلند کیے بغیر نہیں رہ پاتا تھا۔ روزنامہ آج کل میں جب وہ ایڈیٹر تھے اکثر شام 6 بجے کے بعد ان کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ میں وہاں کالم نگار تھا۔ وجاہت مسعود نے مجھے خالد چودھری سے ملوایا تھا۔ یہاں سے ہی ان سے نیاز مندی کا سلسلہ شروع ہوا جو روزنامہ مساوات تک چلا۔ جب وہ روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر بنے تو میری ذمہ داری اداریہ لکھنے کی تھی۔ روز ان کا سویرے سویرے فون آ جاتا اور اداریے کا موضوع زیر بحث لاتے۔ پھر شام کو دفتر میں ملاقات ہوتی تھی جہاں فواد بشارت بھی ہوتے تھے۔

جب میں انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کا جنرل سیکرٹری تھا تب پاک ٹی ہاؤس میں ان کو اکثر مدعو کرتا تھا۔ وہ ادھر آ کر بہت خوش ہوتے تھے۔ خالد چودھری بہت وسیع المطالعہ انسان تھے۔ کتاب دوست تھے۔ ہمیشہ دانش وروں کی محفلوں میں بیٹھ کر خوش رہتے تھے۔ ان کے تعلقات حکمران طبقے سے بھی تھے۔ چاہتے تو مراعات حاصل کر سکتے تھے۔ ان کا نام استعمال کر کے بہت سے دانشور فائدے اٹھاتے تھے مگر وہ جانتے ہوئے بھی صرف مسکراہٹ کے ساتھ بات بدل جاتے۔

مجھے یاد ہے جب میں نے گونیلا سے شادی کا تذکرہ ان کے گھر میں ان کی میزبانی میں (ان کی میزبانی کا آپ کو پتہ ہے) کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ گونیلا سے ہمیشہ پدرانہ شفقت کرتے تھے۔ گونیلا ان کی ایڈیٹری میں خبریں اور آج کل میں کام کر چکی تھی۔ چونکہ میری اور گونیلا کی شادی بین المذاہب تھی، وہ مسیحی اور میں مسلمان تھا۔ میری بات سن کر کہنے لگے نکاح کیسے ہوگا۔ میں نے کہا سر ایک اسلامی طریقے اور ایک مسیحی طریقے سے۔ پھر کہنے لگے میں نے بھی ایک مسیحی عورت سے محبت کی اور اس سے شادی کی مگر اسے فتح نہیں کیا۔

خالد چودھری بہت وضع دار انسان تھے۔ روزنامہ آج کل کی بندش پر جب کارکنوں کی تنخواہیں رکی ہوئی تھیں تو وہ ان کی آواز بن گئے تھے۔ آخر تک مالکان کے ساتھ اختلاف کرتے رہے۔ چاہتے تو اپنے واجبات لے کر چپ ہو جاتے مگر آخر تک لیبر کورٹ میں اپنا مقدمہ لڑتے رہے۔

ان سے صرف ایک ہی گلہ رہا کہ اپنی آپ بیتی کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے یہاں تک کہا کہ آپ بولتے جائیں میں ریکارڈ کروں گا اور پھر لکھ لوں گا مگر وہ نہیں مانے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔