4 اپریل کو انتخابات کا فیصلہ سنا کر عدلیہ نے بھٹو کے عدالتی قتل کا کفارہ ادا کر دیا

4 اپریل کو انتخابات کا فیصلہ سنا کر عدلیہ نے بھٹو کے عدالتی قتل کا کفارہ ادا کر دیا
4 اپریل 1979 کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ جسمانی طور پر تو بھٹو مر گیا مگر تاریخ کے اوراق میں وہ زندہ رہا۔ بھٹو کا خون ناحق وطن عزیز کی گلی گلی میں پھیل گیا اور اپنی موت کے 30 سال بعد تک بھی ملک میں ہونے والا ہر الیکشن اسی کے نام پر ہوتا رہا۔ ایک طرف بھٹو کے جیالے اور دوسری طرف اس کے نام سے بیزار لوگ ہوتے تھے۔ خالق آئین پاکستان ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اساطیری کردار بن چکا ہے۔ پاکستان میں جب بھی جمہوریت، آئین اور قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑی جائے گی تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے ہی شروع ہو گی۔

5 جولائی 1977 کو ایک فوجی جنرل ضیاء الحق نے آئین پاکستان کو پامال کیا بلکہ آئین پاکستان کو اپنے قدموں تلے روند دیا اور ملک پر قبضہ کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ بعد ازاں طویل عدالتی کارروائی کے نتیجے میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے بعد 4 اپریل 1979 کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یوں بھٹو امر ہو گیا۔

آج 2023 میں حالات اس کے برعکس ہو چکے ہیں۔ یہ حالات کا جبر ہے کہ تاریخ کا دھارا الٹا چل رہا ہے۔ آج آئین کے خالق جس نے وطن عزیز کو پہلا آئین دیا تھا، اسی گریٹ ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری کہہ رہا ہے کہ الیکشن 90 روز میں نہیں ہو سکتے۔ آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ جب اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے تو الیکشن 90 روز کے اندر کرائے جائیں۔ یہ آئین پاکستان بلاول زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔

دوسری طرف آئین پاکستان کو پامال کرنے والے بدترین فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا بیٹا اعجاز الحق جو اب تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ آئین پاکستان کے مطابق چلا جائے اور اس کی مکمل پاسداری کی جائے، الیکشن 90 روز کے اندر کرائے جائیں۔ اسے کہتے ہیں کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ کل کے آئین شکن کی اولاد آج آئین کی پاسداری کی بات کر رہی ہے اور خالق آئین پاکستان کی اولاد آئین شکنی کا اعادہ ظاہر کر رہی ہے۔

عدالت عظمیٰ کا بنچ جس کی سربراہی خود چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطاء بندیال نے کی اس نے 4 اپریل کے دن یعنی آئین پاکستان کے خالق کی برسی والے دن ہی آئین پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے فیصلہ جاری کر دیا۔ اس ملک میں اب کوئی بھی کام آئین پاکستان کے خلاف نہیں ہو گا۔ یوں 4 اپریل 2023 آئین پاکستان کی جیت کا بھی دن بن گیا۔ جو عدالتی قتل 4 اپریل 1979 کو کیا گیا تھا آئین پاکستان کو پامال کرنے والے کے سامنے اس وقت کی عدالت عظمی سرنگوں ہو چکی تھی۔ آج 4 اپریل 2023 کی عدالت عظمیٰ نے اس گناہ کا بھی کفارہ ادا کر دیا۔

کل ملک کے کوچے کوچے گلی گلی میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بول رہا تھا اور آج گلی گلی کوچے کوچے میں عمران خان کے نام کا نقارہ بج رہا ہے۔ آج تک جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا مگر آج سے جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی کا پرچم کپتان کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ آج جہاں کپتان جاتا ہے، عوام کا جم غفیر وہاں پہنچ جاتا ہے۔ آج ملک میں ہونے والا ہر سروے کپتان کی جیت کا اعلان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکس اچار حکمران اتحاد الیکشن سے بھاگ رہا ہے مگر مقام ماتم یہ ہے کہ عوامی سیاست کی شناخت ذوالفقار علی بھٹو کا داماد آصف علی زرداری اور نواسہ بلاول بھٹو زرداری اپنی بدعنوانیاں چھپانے کے لیے آج آئین شکنی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا جبر ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔