• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, مارچ 26, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

نیا دور by نیا دور
مئی 16, 2019
in تعلیم, عوام کی آواز
7 0
0
نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے
40
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

تحریر: (ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ) ہمارے معاشرے کا ایک بگڑتا ہوا ناسور ؟ایک ایسی چوری اور گداگری جس کا شکار پڑھا لکھا اورمعزز طبقہ بھی ہے!

فخر ایک شرارتی لڑکا تھا۔ وہ پڑھائی میں بالکل دلچسپی نہ لیتا، دن بھر نت نئی شرارتوں کے منصوبے بنایا کرتا، کبھی کسی کے دروازے کی گھنٹی بجا کربھاگ جانا تو کبھی کسی جانور کو اذیتیں دینا، کسی خوانچہ فروش کی نقل کرنا یا کسی بھکاری کو زچ کرنا۔

RelatedPosts

سیالکوٹ واقعہ: معاشرے کو اس نہج تک پہنچانے میں سب کا کردار ہے

پاکستان اخلاقی زوال کا شکار؟: ‘ڈیٹا تو بتاتا ہے کہ پاکستانی اپنی اقدار کے مزید قریب ہوئے ہیں’

Load More

حتی کہ اسکول میں بھی اس کا ذہن شرارتوں ہی کی طرف مائل رہتا۔ وہ کبھی ایک طالب علم کی چیزیں چھپا کر کسی دوسرے کے بستے میں ڈال دیتا، کلاس میں ہوٹنگ کرتا، جماعت کے نظم و ضبط کو خراب کرتا، سکول کے چوکیدار کو تنگ کرتا، الغرض نت نئی سازشیں، نت نئی چالیں۔ اگر اس کے اساتذہ اور والدین اس کی توجہ تعلیم کی طرف دلاتے تو انہیں سہانے خواب دکھا دیتا۔ اپنی فرضی محنت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا، وہ امتحانات کے سلسلے میں بہت پرامید بلکہ پراعتماد تھا۔ اساتذہ بہرحال اس کے سال بھر کے طرز عمل اور محنت سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایک استاد نے اس کے سامنے جناب سید ضمیر جعفری کی نظم کا یہ بند بھی پڑھ ڈالا۔

رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے

کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے

نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا

معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

لیکن وہ فخر ہی کیا جس کا سر ندامت سے جھک جائے وہ بھی اپنی دھن کا پکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بہت ذہین ہے اوراپنی ذہانت کے استعمال سے وہ نقل کے لئے ایسے نئے نئے حربے آزمائے گا جن کا توڑ کسی کے پاس نہ ہوگا۔ کوئی جان بھی نہ سکے گا اور وہ اس نقل سے نہ صرف پاس ہو جائے گا بلکہ اعلیٰ نمبر حاصل کر لے گا۔ سالانہ امتحان کے آغاز سے قبل جب اس کے ایک دوست نے امتحان کی تیاری کے متعلق استفسار کیا تو اس نے استہزائیہ انداز سے کہا کہ مکمل تیاری ہے۔ نیا یونیفارم، نئے جوتے، نیا قلم الغرض تمام اشیاء بالکل نئی خرید چکا ہوں۔ اب صرف امتحان کا انتظار ہے۔

جب امتحان کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پہلے پرچے کے دوران مکمل تیاری کے ساتھ گیا لیکن پرچہ اس کی توقعات کے برعکس نکلا یعنی اس کے لائے ہوئے کارتوس ناکارہ ثابت ہوئے۔ جب پرچہ توقع کے برعکس دیکھا تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے ادھر ادھر جھانکنا شروع کردیا۔ کبھی کسی سے سوال کرے کبھی کسی سے کچھ مانگے، التجا کرے۔ اس کے استاذ نے جب اسے اس طرح التجاء کرتے اوردوسروں سے مانگتے دیکھا تو کہا تم اگر سال بھر محنت کرتے تو آج دوسرو ں سے بھیک نہ مانگ رہے ہوتے بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پر اب امتحان دے رہے ہوتے۔ یوں فخر کو سب کے سامنے خفگی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس عمل سے توبہ کرنے کے بجائے وہ اپنے ذہن میں کوئی اور ہی منصوبہ بنا رہا تھا کہ کل میں مزید تیاری سے آؤں گا اور مجھے کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے گا ۔

اگلے دن اس نے ساری رات بیٹھ کر بہترین انداز سے نقل کی تیاری کی۔ اس نے نوٹس بنانے کے علاوہ اپنے رومال، جراب، آستینوں، دامن الغرض ہر دستیاب جگہ پر شارٹ ہینڈ کی طرز پر اپنی علامات بنائیں اور بہت ہی باریک بینی سے کشیدہ کاری کی۔ اس نے یہ تمام کام اس قدر مہارت سے کیا کہ اس کے علاوہ کوئی اور اس تحریر کو اول تو پڑھ ہی نہ سکتا تھا اور سمجھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہرحال اس تمام تر جدوجہد کے بعد صبح جب وہ میدان کارزار میں داخل ہوا تو بہت مطمئن اور مسرور تھا۔ امتحان گاہ پہنچ کر اس نے سب سے پہلے اپنے چشمے کی طرف ہاتھ بڑھایا کیونکہ اس کی قریب کی نظر کمزور تھی۔ لیکن یہ کیا، جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے کہ وہ اپنی نظرکا چشمہ لانا تو بھول ہی گیا تھا۔ اب وہاں بیٹھ کر وہ صرف اپنی بے بسی پر آنسو بہا سکتاتھا! اچانک اسے کین نسبت (Kenn Nesbitt) کی نظم This Morning is Our History Testیاد آئی جس کے آخری بند میں اس ہی کیفیت کو بیان کیا گیا تھا جس سے آج وہ گزر رہاتھا۔

I came to school so well prepared.
I wasn’t nervous, wasn’t scared.
But here it is, the history test.
I look inside my coat and vest
to get the dates and famous quotes
and find I cannot read my notes.
So much for Shakespeare, Greece and Rome.
I left my glasses back at home.

لیکن وہ فخر ہی کیا جو نامساعد حالات سے گھبرا کر پسپائی اختیار کر لے۔ اور ویسے بھی امتحان کے دنوں میں تیاری نہ ہونے کے سبب اس کے پاس اور کوئی حل بھی نہ تھا۔ اگلے دن وہ فخریہ انداز سے ہر طرح کی بوٹی اور کارتوسوں سے لیس کمرہ امتحان میں داخل ہوا۔ ہاں اور اپنا چشمہ لانا وہ ہرگز نہ بھولا۔ پرچہ سامنے آتے ہی اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کرنے لگا کہ کون سا سوال کہاں رکھا ہوا ہے۔ ابھی وہ بمشکل سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ پایا تھا کہ اچانک معلوم ہوا کہ آج اچانک بورڈ سے انسپیکشن کی ٹیم آگئی ہے۔ اب اس نے سوچا کیا کیا جائے۔ انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھ ۔ٹیم نے اس کے کمرے میں بہت وقت لگایا۔ نگران بھی بہت مستعد اورچوکس تھے۔ اس کا قیمتی وقت برف کی مانند بڑی تیزی سے اس کے ہاتھوں سے پھسلتا رہا۔ جب اس نے وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس نے تمام ترخوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بڑی رازداری اور خاموشی سے نقل کرنا شروع کی،  یہ کیا ابھی وہ پہلا سوال ہی کر رہا تھا کہ نگران نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔

وہیں پر انہوں نے ہیڈ ماسٹرصاحب کو بلا لیا۔ وہ نفسیات دان تھے اور قابل، لائق اور محنتی طلباء سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا کہ فخر تم چور کب سے بن گئے؟ اس نے کہا میں نے تو کبھی چوری نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ چوری نہیں تو اور کیا ہے۔ نقل کرنا اوراس میں معاونت کرنا ایک گناہ عظیم ہے۔ یہ ایسی لعنت ہے جو کئی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ ظلم اور ناانصافی ہے۔ حقوق العباد کی حق تلفی ہے۔ نقل کی مدد سے اگر کوئی ڈگری حاصل بھی کر لے تاہم تعلیم وتربیت کی اصل روح یعنی وہ خوداعتمادی، عزت نفس، اطمینان قلب و سکون نفس سے یکسرمحروم رہے گا۔ الغرض نقل صرف معاشرے کو علمی اعتبار سے ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ایک ایسے ناسور کی مانند ہے جس سے مواد رِس رِس کر پورے معاشرے کو تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی ، مذہبی، شخصی اور اجتماعی طور پرکرپٹ کر دیتی ہے اور ملک وقوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

پھر نے انہوں نے مزید فرمایا کہ اتنا بڑا گناہ اورچوری کرنے کے باوجود تم جھوٹ بھی بولتے ہو اور جھوٹ بھی ایسا جو پوری زندگی پر محیط ہو کیونکہ جب تم کہتے ہو کہ میں نے اتنے نمبر حاصل کیے ہیں تو یہ صریح جھوٹ ہے کیوں کہ تم ان نمبروں کے اہل تو قطعا نہ تھے نیز تم اس ملک و قوم کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان کی بنیاد رکھ رہے ہو۔
فخر نے پوچھا وہ کیسے:

ہیڈماسٹر صاحب نے فریایا : ذرا غور کرو اگر یہ شخص ناقص علم، ادھوری معلومات اور بے ترتیب انداز سے واقعی کسی سخت مشکل پیچیدہ معاملے میں الجھ جاتا ہے تو یہ کس قدر نقصان دہ ہو گا۔ دیکھو اگر کوئی شخص نقل کر کے ڈاکٹر بن بھی جائے تو وہ اس وقت مریضوں کی جانوں سے کھیل رہا ہو گا جس کے لئے یہ محاورہ تم نے ضرور سنا ہو گا ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ نیز جان لو’ اس قبیل کے تمام ناہل افراد جس بھی میدان کارزار میں حصہ لیں گے وہاں فساد اور بگاڑ کے سوا کچھ نہ کرسکیں گے‘‘ نقل کر کے امتحان پاس کرنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے یہ شخص اس سند کا حامل ہے اور ضرور اس شخص میں ان معاملات کو حل کرنے کی قابلیت ہو گی۔ اس اعتماد کے ساتھ جب اس کے سپرد معاملات کئے جاتے ہیں تو یہ تعلیم یافتہ شخص ایک ایسے دانا (نادان دوست) کی طرح معاملات حل کرتا ہے جیسا اس تمثیل میں ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص بلند وبالا درخت پر چڑھ گیا اور بلندی دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے اور اس کے لئے نیچے اترنا ناممکن ہو گیا اس وقت ایک نام نہاد دانشور کو بلایا گیا جس نے اپنے تئیں انتہائی فراست کے ساتھ حکم دیا کہ ایک رسی لائی جائے اوراس شخص سے کہا تم اس رسی کو اپنی کمر سے باندھ لو۔ جب اس نے باندھ لی تو دو آدمیوں کی مدد سے بلندی پر موجود شخص کو تمام ترقوت کے ساتھ کھینچا ۔پھر وہی ہوا جو ہونا تھا اس کی لاش کے پاس بیٹھ کر یہ حضرت کہتے ہیں کہ میں نے بارہا کنوئیں سے آدمی نکالیں ہیں آج تک کوئی نہیں مرا اس شخص کو کیا ہو گیا ، شاید اس کی قسمت ہی خراب تھی۔ تو بہرحال بیٹا اس قبیل کے آدمیوں سے اس قسم کے فیصلوں ہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں جعلی ڈگری ہولڈروں سے بچائیں اور ہمارے ملک اور قوم کے امور اہل اور باکردار افراد کے سپرد کرے۔ اس تمثیل کے بعد وہ دوبارہ فخر سے مخاطب ہوئے: اور سحرانگیز الفاظ میں کہا کہ” تم تو جھوٹے بھی ہو ، بھکاری بھی اور چور بھی” ۔یہ تمام الفاظ فخر کے دل پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ پوری کلاس کے سامنے اس طرح کی شرمندگی، رسوائی، بے وقعتی کا اس نے کبھی خواب میں بھی تصورنہ کیا تھا! لیکن اس کا ضمیر بیدار ہو چکا تھا اور اسے کچوکے لگا رہا تھا، چیخ چیخ کر پکار رہا تھا کہ واقعی استاد محترم صحیح فرما رہے ہیں۔ اس (نقل) کے لیے تمہیں دائمی جھوٹ کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے،  یعنی ایک برائی کئی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر تھوڑی سی محنت کر لیتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

استاد محترم کے ان بصیرت افروز واقعات اورحکیمانہ درس نے اس کی دل کی دنیا بدل دی۔ اب یہ سب باتیں سن کر وہ رونے لگا اوراس نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی ایسا نہ کرے گا بلکہ خوب محنت کرے گا۔اورواقعی اگلے سال اس نے ابتداء ہی سے انتہائی منظم انداز سے تعلیم کو وقت دیا۔ تمام شرارتوں سے توبہ کی ۔ اور پھر جب سالانہ نتیجہ آیا تو واقعی وہ نہ صرف اعلیٰ نمبروں سے پاس تھا بلکہ پورے اسکول نے اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اب تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔

ہیڈماسٹر صاحب نے کہا بیٹا اب آپ کو سچی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ اس مقام کو آپ نے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے اب آپ فخر سے کہہ سکتے ہو کہ میں نے امتحان میں پہلی پوزیشن لی ہے اور آپ کا ضمیر آپ کو کچوکے نہیں مارے گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔فخر نے دل کی گہرائی سے ہیڈماسٹرصاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اسے ڈانٹنے یا مارنے کے بجائے اس کی اصلاح کی اورآج کی اس کامیابی کا ذریعہ بنے۔

Tags: امتحانات میں نقلپاکستان میں امتحاناتکالممعاشرہ
Previous Post

سری لنکا میں مسلم مخالف تشدد کے واقعات میں اضافہ

Next Post

نوجوانوں کو ہنرمند بنانے اور باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘  کی منظوری

نیا دور

نیا دور

Related Posts

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

by یوسف بلوچ
فروری 11, 2023
0

پشتونوں کو باچا خان جیسے عدم تشدد کے حامی، ترقی پسند سوچ والے رہنما بھی ملے ہیں اور دہشت گردی اور انتہا...

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

by حسنین جمیل
جنوری 19, 2023
0

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور...

Load More
Next Post

نوجوانوں کو ہنرمند بنانے اور باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘  کی منظوری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In