بھارتی حکومت کی مسلم دشمنی، اور بی جے پی اور آر ایس ایس کی آپسی لڑائی

بھارتی حکومت کی مسلم دشمنی، اور بی جے پی اور آر ایس ایس کی آپسی لڑائی
مودی کی دوسری حکومت کے آنے کے بعد نہ صرف بھارت بلکہ پورا خطہ اضطراب کا شکار ہے۔ پچھلے سال سے لائن آف کنٹرول پہ محاذ گرم ہے اور ہمارے یہاں بہت سے شہری اور جوانوں کی شہادتیں بھی ہو چکی ہیں۔

پچھلے سال اگست میں بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر کو آئین کی شق 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت، جس میں کشمیر کو محدود خود مختاری حاصل تھی، کو منسوخ کرتے ہوئے گذشتہ 208 دنوں سے وادی کو قید خانے کی سی صورت دے رکھی ہے۔

11 دسمبر 2019 کو بھارت کی پارلیمنٹ نے 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر دی۔ شہریت ایکٹ میں ترمیم کی وجہ سے غیرقانونی طور پہ بھارت منتقل ہوئے ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی جنہوں نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے اکثریتی مسلمانوں کے امتیازی رویے سے تنگ آ کر دسمبر 2014 تک بھارت میں پناہ لی تھی کو بھارتی شہریت کا حق مہیا ہے۔ لیکن ان ممالک سے آئے مسلمانوں کو بھارتی شہریت کا حق حاصل نہیں۔ ایسا بھارت میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہندوستان کے شہریت کے قانون کو کسی مذھب کی بنیاد پہ امتیازی بنایا گیا ہو۔

ترمیم کو بین الاقوامی اور ملکی سطح پہ پذیرائی نہ مل سکی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے اس ترمیم کو ’بنیادی طور پر امتیازی‘ ایکٹ قرار دیا۔ ملک گیر سطح پہ اس بل کی موجودگی سے شدید اضطراب پھیلا اور ناقدین، جو بھارتی معاشرے کے ہر طبقہ فکر اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ایکٹ سے منسلک NRC کی وجہ سے مسلمان ایکٹ میں دیے گئے پیدائش اور شناخت کے سخت اور ناممکن ثبوت کی عدم فراہمی کی بنیاد پر ریاست سے ڈھیروں کی تعداد میں بے دخل ہو جائیں گے۔ اس ایکٹ کی وجہ سے پورے بھارت میں مظاہرے شروع ہو گئے۔



لیکن ٹرمپ کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران دہلی کے مختلف اضلاع میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ مظاہرین شاہین باغ میں گذشتہ دو ماہ سے ایکٹ کے خلاف دھرنا دیے ہوئے تھے۔ فسادات بی جے پی کارکنوں کے اس مطالبے سے شروع ہوئے کہ انتظامیہ وہاں سے خواتین کو زبردستی اٹھائے۔ لیکن اکنامک ٹائمز کے ٹی کے ارون کا کہنا ہے کہ دہلی کے فسادات ترمیمی ایکٹ کے حامی اور مخالفین کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ نسلی اور مذہبی فسادات ہیں۔

ارون کا یہ بھی کہنا ہے بی جی پی کے حالیہ دلی الیکشن میں ہارے ہوئے امیدوار کپل مشرا کو بی جے پی کے دہلی ریاست کے صدر منوج تیواڑی نے فسادات کو اکسانے والی تقریر پہ سخت برا بھلا کہا کیونکہ بی جی پی نہیں چاہتی تھی کہ ٹرمپ کے دورے کے دوران دہلی میں فسادات ہوں۔ لیکن اس فساد کو بہانہ بنا کر اب ہو سکتا ہے ایکٹ کے خلاف دیے گئے دھرنے کو اب ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے کچلا جائے۔

اب بڑا سوال یہ ہے اس سارے خونی کھیل سے بی جے پی یا مودی کو کیا حاصل ہوگا؟ مذھبی فسادات کا اب پورے ملک میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ جس سے یقیناً ریاست ہندوستان کو شدید نقصان ہوگا۔ بھارت کی معشیت بھی اب کوئی مثالی نہیں رہی۔

میں نے یہ سوال اپنے ان دوستوں کے سامنے رکھا جو ریاستی، سماجی اور سیاسی علوم پہ دسترس رکھتے ہیں۔ تقریباً سب کی رائے تھی کہ ایسا کرنا دراصل بھارت کی گرتی ہوئی معاشی ساکھ سے لوگوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ مگر پھر یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اگر فسادات پورے بھارت میں پھیلتے ہیں تو معیشت تو تباہ ہوگی لیکن مودی سرکار کی راج نیتی پہ بھی گہری چوٹ آئے گی۔ اور ہندو نیشنلزم کا اُبھار اسے کوئی فائدہ نہ دے سکے گا، اگر وہ سمجھتا ہے کہ ہندو نیشنلزم کے ابھارنے سے وہ اپنی راج نیتی کے متعلق کوئی اچھا تاثر دے پائے گا۔



آج ڈان میں اے جی نورانی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی چپقلش کی اندرونی کہانی سنا کر بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ انوکھی بات یہ تھی کہ آر ایس ایس ہندو نیشنلزم کے جذبات ابھارنے کے حق میں نہیں اور نہ ہی مودی سرکار کی راج نیتی کی کارکردگی سے خوش ہے۔ جس کا ثبوت شیو سہنا نے مہاراشٹر میں بی جے پی مخالفین سے اتحاد کر کے نہ صرف بی جے پی کو مہاراشٹر سے نکال باہر کر کے کیا بلکہ سونیا گاندھی کے دربار میں نئی دہلی میں حاضری دے کر مشترکہ اعلامیے میں متنازع لفظ سیکولرزم کی اہمیت کا ذکر بھی کرنا پڑا۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مودی ہندو نیشنلزم کو ہوا دے کر آر ایس ایس کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ بہرحال بھارت کی سیاست میں آنے والے دن، لگتا ایسا ہے، یا تو مذہبی روا داری کی سیاست کے دنوں کی شروعات ہوگی یا پھر وہ آگ بھڑکے گی کہ جس کے متعلق سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔