• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, مارچ 21, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پنجاب کی سیکولر ریت کو پھر سے اجاگر کرنا ہوگا

الیاس عباسی by الیاس عباسی
اپریل 29, 2020
in سیاست, شاعری, عوام کی آواز, مذہب, معاشرہ
7 0
0
Baba-Bulleh-Shah's-Secular-Punjab
40
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے نیوٹن کانام نہ سنا ہو۔ طبیعات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اس سائنسدان کا تیسرا قانون بتاتا ہے کہ ہرعمل کا ایک ردعمل ہے اور یہ ردعمل اتنا ہی شدید ہوگا جتنا اس پر عمل کیا جائے۔ اسی قانون کے تناظر میں برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں ایسے حکمران بھے گزرے ہیں جو باہمی بقا اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر کاربند رہے۔ ان میں نمایاں نام مغل حکمران اکبر کا ہے جسے تاریخ مغل اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہی وراثتی حکمرانی جب اورنگزیب عالمگیر تک پہنچتی ہے تومذہبی جبر، عدم رواداری کا دور دورہ ہوتا ہے، جب باغیوں کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ اس دورمیں کئی مشہورباغیوں کی سرکوبی کی گئی۔

اس تشدد و پرآشوب دورمیں پنجاب نے خوب ستم اٹھائے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق جبر کے اس دور میں ردعمل بھی شدید ہونا تھا، اسی لئے سکھوں کے رہنما گرو تیغ بہادر نے جابر سلطان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ آپ نے اپنے قول کے عین مطابق اپنا سر دے دیا مگر سر جھکایا نہیں۔

RelatedPosts

No Content Available
Load More

اسی جبر کے خلاف ایک اور آواز پنجاب سے اٹھتی ہے۔ یہ آواز لاکھوں پنجابیوں کے دلوں کی آواز بن جاتی ہے۔ امن، بھائی چارے، انسانیت اور سیکولر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ندارد۔

اس دور میں سادھوؤں اور صوفیوں کو ’غیرشرعی‘ رویے اپنانے پر تنقید و ظلم بھی سہنے پڑے۔ ان کی آوازیں حکمران وقت اور اس کے حواریوں کے نظام کو چیلنج کر رہی تھیں۔ انہی باغی آوازوں میں بلھے کی آواز نے پنجاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بابا جی نے مذہبی منافرت اور تقسیم کے خلاف نعرہ لگایا۔ انتہائی باغی رویہ اپنانے پر بلھے پرالحاد کے فتوے بھی لگے، مرتد اور دہریے کے القابات بھی ملے، موجودہ دور کے کچھ ’پروفیسرحضرات‘ کا تو ماننا ہے کہ اگر بلھے کو پڑھایا گیا تو ہماری نوجوان نسل کے ’خراب‘ ہونے کا اندیشہ ہے۔ بلھے کی طبیعت کااندازہ اس کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

گل سمجھ لئی تے رولا کیہہ
اے رام،رحیم تے مولا کیہہ

پنجاب کی سیکولرریت میں نانک، کبیر، فرید،وارث شاہ ، شاہ حسین اور بلھا نمایاں ہیں۔ اسی لئے تو یہاں رابن ہوڈ جیسے کردار دلا بھٹی بھی ملتے ہیں جو جابر سلطان کے جابراحکامات سے انکاری ہیں۔ یہاں کئی بڑے مذاہب اور اصلاحی تحریکیں پنپیں۔ پنجاب کی اس ریت کی تاریخ پرانی ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب سے نکلی اس روایت کو ان مذکورہ بالا مشاہیر نے جاری رکھا۔
سچ حق ہے اوراس کا ساتھ دینے والے امر ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے بلھے نے سرمستی میں کیا خوب کہا

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور

1849 میں تاج برطانیہ کا سورج پنجاب میں طلوع ہوا اور یوں مکمل برصغیر اس کی راجدھانی بن گیا۔ راج دور میں اکبر کی طرح سیکولر پالیسیاں بنائی گئیں، محکوموں کو مذہبی آزادی ملی۔ اسی دور میں پنجاب کی سیکولر ریت خوب پروان چڑھی۔ اب عیسائیت بھی یہاں فروغ پانے لگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ انہی میں سے ایک بڑی تبدیلی ہندوستان کی تقسیم تھی۔

محمدعلی جناحؒ کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو پڑھی لکھی و ترقی پسند سوچ کی حامل قیادت ملی۔ کچھ سوشل ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت تھی۔ یوپی، بہار، بنگال اور بمبئی سے کئی سرمایہ کار، جاگیردار اور نوابوں نے یہاں ہجرت کی۔ قیامِ پاکستان سے ہی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریرمیں ہی ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا، یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ کوئی مندر جائے، مسجد جائے یا گرجا جائے، تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

افسوس کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ قرارداد مقاصد سے شروع ہوئی منافرت کوضیا کی آمریت میں خوب فروغ ملا، جب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ موجودہ دورمیں انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ غالب کا شعر بیان کرنے پر مشعال جیسے طالب علم کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج یہی سوچ بلھے کی کافیوں سے خائف ہے۔

بلھے سے جناح تک کے سفرمیں بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امرتا پریتم کے آنسو بھی تقسیم ہند کے وقت ہوئے ظلم نہ روک سکے۔ آج ہم سب کیدو بن گئے ہیں۔ انسانیت، رواداری اور باہمی بقا کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ ماضی پرستی نے ہمارے سفر کا رخ بھی موڑ دیا ہے۔

وقت کاتقاضہ ہے کہ پنجاب کی اسی باغیانہ اور سیکولر ریت کو دوبارہ ابھارا جائے اور کلمہ حق کا نعرہ پھر سے بلند ہو کہ انسانوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔

ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے نیوٹن کانام نہ سنا ہو۔ طبیعات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اس سائنسدان کا تیسرا قانون بتاتا ہے کہ ہرعمل کا ایک ردعمل ہے اور یہ ردعمل اتنا ہی شدید ہوگا جتنا اس پر عمل کیا جائے۔ اسی قانون کے تناظر میں برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں ایسے حکمران بھے گزرے ہیں جو باہمی بقا اور مذہبی رواداری کے اصولوں پر کاربند رہے۔ ان میں نمایاں نام مغل حکمران اکبر کا ہے جسے تاریخ مغل اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہی وراثتی حکمرانی جب اورنگزیب عالمگیر تک پہنچتی ہے تومذہبی جبر، عدم رواداری کا دور دورہ ہوتا ہے، جب باغیوں کو سبق سکھایا جاتا ہے۔ اس دورمیں کئی مشہورباغیوں کی سرکوبی کی گئی۔

اس تشدد و پرآشوب دورمیں پنجاب نے خوب ستم اٹھائے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق جبر کے اس دور میں ردعمل بھی شدید ہونا تھا، اسی لئے سکھوں کے رہنما گرو تیغ بہادر نے جابر سلطان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ آپ نے اپنے قول کے عین مطابق اپنا سر دے دیا مگر سر جھکایا نہیں۔

اسی جبر کے خلاف ایک اور آواز پنجاب سے اٹھتی ہے۔ یہ آواز لاکھوں پنجابیوں کے دلوں کی آواز بن جاتی ہے۔ امن، بھائی چارے، انسانیت اور سیکولر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ندارد۔

اس دور میں سادھوؤں اور صوفیوں کو ’غیرشرعی‘ رویے اپنانے پر تنقید و ظلم بھی سہنے پڑے۔ ان کی آوازیں حکمران وقت اور اس کے حواریوں کے نظام کو چیلنج کر رہی تھیں۔ انہی باغی آوازوں میں بلھے کی آواز نے پنجاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بابا جی نے مذہبی منافرت اور تقسیم کے خلاف نعرہ لگایا۔ انتہائی باغی رویہ اپنانے پر بلھے پرالحاد کے فتوے بھی لگے، مرتد اور دہریے کے القابات بھی ملے، موجودہ دور کے کچھ ’پروفیسرحضرات‘ کا تو ماننا ہے کہ اگر بلھے کو پڑھایا گیا تو ہماری نوجوان نسل کے ’خراب‘ ہونے کا اندیشہ ہے۔ بلھے کی طبیعت کااندازہ اس کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

گل سمجھ لئی تے رولا کیہہ
اے رام،رحیم تے مولا کیہہ

پنجاب کی سیکولرریت میں نانک، کبیر، فرید،وارث شاہ ، شاہ حسین اور بلھا نمایاں ہیں۔ اسی لئے تو یہاں رابن ہوڈ جیسے کردار دلا بھٹی بھی ملتے ہیں جو جابر سلطان کے جابراحکامات سے انکاری ہیں۔ یہاں کئی بڑے مذاہب اور اصلاحی تحریکیں پنپیں۔ پنجاب کی اس ریت کی تاریخ پرانی ہے۔ ہڑپہ کی تہذیب سے نکلی اس روایت کو ان مذکورہ بالا مشاہیر نے جاری رکھا۔

سچ حق ہے اوراس کا ساتھ دینے والے امر ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے بلھے نے سرمستی میں کیا خوب کہا

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور

1849 میں تاج برطانیہ کا سورج پنجاب میں طلوع ہوا اور یوں مکمل برصغیر اس کی راجدھانی بن گیا۔ راج دور میں اکبر کی طرح سیکولر پالیسیاں بنائی گئیں، محکوموں کو مذہبی آزادی ملی۔ اسی دور میں پنجاب کی سیکولر ریت خوب پروان چڑھی۔ اب عیسائیت بھی یہاں فروغ پانے لگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ انہی میں سے ایک بڑی تبدیلی ہندوستان کی تقسیم تھی۔

محمدعلی جناحؒ کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو پڑھی لکھی و ترقی پسند سوچ کی حامل قیادت ملی۔ کچھ سوشل ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت تھی۔ یوپی، بہار، بنگال اور بمبئی سے کئی سرمایہ کار، جاگیردار اور نوابوں نے یہاں ہجرت کی۔ قیامِ پاکستان سے ہی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریرمیں ہی ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا، یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ کوئی مندر جائے، مسجد جائے یا گرجا جائے، تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

افسوس کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ قرارداد مقاصد سے شروع ہوئی منافرت کوضیا کی آمریت میں خوب فروغ ملا، جب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کا سہارا لیا گیا۔ موجودہ دورمیں انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ غالب کا شعر بیان کرنے پر مشعال جیسے طالب علم کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے۔ آج یہی سوچ بلھے کی کافیوں سے خائف ہے۔

بلھے سے جناح تک کے سفرمیں بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امرتا پریتم کے آنسو بھی تقسیم ہند کے وقت ہوئے ظلم نہ روک سکے۔ آج ہم سب کیدو بن گئے ہیں۔ انسانیت، رواداری اور باہمی بقا کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ ماضی پرستی نے ہمارے سفر کا رخ بھی موڑ دیا ہے۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ پنجاب کی اسی باغیانہ اور سیکولر ریت کو دوبارہ ابھارا جائے اور کلمہ حق کا نعرہ پھر سے بلند ہو کہ انسانوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔

Tags: بابا بلھے شاہبلھے شاہ کا پنجابسیکولر پنجاب
Previous Post

اداکارہ فضہ علی پر پارکنگ لاٹ میں مشتعل خاتون کا حملہ

Next Post

تکامل یا Evolution اور مذہبی ردِ عمل: کیا واقعی نظریہ ارتقا اسلام کی ضد ہے؟

الیاس عباسی

الیاس عباسی

Related Posts

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

by یوسف بلوچ
فروری 11, 2023
0

پشتونوں کو باچا خان جیسے عدم تشدد کے حامی، ترقی پسند سوچ والے رہنما بھی ملے ہیں اور دہشت گردی اور انتہا...

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

by حسنین جمیل
جنوری 19, 2023
0

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور...

Load More
Next Post
تکامل یا Evolution اور مذہبی ردِ عمل: کیا واقعی نظریہ ارتقا اسلام کی ضد ہے؟

تکامل یا Evolution اور مذہبی ردِ عمل: کیا واقعی نظریہ ارتقا اسلام کی ضد ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 20, 2023
0

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
0

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In