دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا کندھوں سے بوجھ کم کرو صاحب

دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا کندھوں سے بوجھ کم کرو صاحب
"الکاسب حبیب اللہ" جس خوبصورت انداز میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدور کی عزت افزائی فرمائی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدور اور محنت کش کو انبیا اکرام اور اولیا اللہ کی صف میں کهڑا کر کے مزدور کو وہ مقام دیا جو اہل ثروت کی سوچ سے بہت بلند ہے۔ جہاں ہم اپنے خاص لوگوں کے قصیدے لکهتے نہیں تهکتے۔ آج اپنے مزدور بهائیوں کی شان میں چند سطریں بیان کرتے ہیں۔

میری یہ تحریر قوم و ملت کے معماروں کے نام، تانگے بانوں کے نام، ریل بانوں کے نام، دہقانوں کے نام، محنت کشوں اور سخت جانوں کے نام۔ یہ تحریر ان بابا جی کے نام جن کی عمر کا تقاضہ ہے کہ اب آپ گهر بیٹھ کر آرام وسکون کی زندگی بسر کریں لیکن احساس ذمہ داری اور فکر معاش ان کو ایسا نہیں کرنے دیتا اور وہ اپنی ضعیف کمر پر کئی من بوجھ اٹهائے ہوئے مارکیٹوں میں ادهر ادهر لڑکهڑاتے ہوئے چلتے پهرتے نظر آتے ہیں۔ میرے سب الفاظ ان 80 سالہ نوجوانوں کے نام جنہیں فکر معاش بڑهاپے میں بهی بوڑها نہیں ہونے دیتی۔ میری تحریر ان سخت جانوں کے نام جو کرونا کی ہلاکت خیزی سے زیادہ فکر معاش اور کفالت اہل خانہ سے ڈرے ہوئے ہیں۔

موضوع بحث ہے کسی ہوٹل، سٹور، فروٹ شاپ یا ورکشاپ پر کام کرتا وہ کم سن بچہ جس کی عمر قرطاس و قلم تهامنے اور گیند بلا کهیلنے کی ہے، مگر بے رحم حالات نے اس کی فکر معاش سے آشنائی کروا کر اسے مزدوری پر مجبور کر دیا ہے۔ آج بات کرتے ہیں اس معصوم کی جس کے پهول سے چہرے کی ہنسی حالات کے دهندلے اور گرد آلود صحن میں کهو سی گئی ہے، اور وہ معصوم بچہ میلے کپڑے زیب تن کیے اس وقت گهر سے تلاش رزق میں نکلتا ہے جب اس کے ہم عمر خوبصورت وردیاں پہنے ہاتهوں میں بستے اٹهائے سکول کے لیے جا رہے ہوتے ہیں۔ آئیے بات کرتے ہیں آدم و حوا کی عزت دار بیٹی کی جو والدین، شوہر اور اہل خانہ کا بوجھ بانٹنے کی غرض سے بازاروں کی خاک چهانتی ہے۔ اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے خاندان کی کفالت میں حصہ ڈالتی ہے، اس حوا جائی کو میرا سلام۔

میری یہ تحریر نیو کیمپس میں پاپڑی چاٹ والے چاچا کیمکل کے نام جو عمر کے اس حصے میں بهی اپنے خاندان کی کفالت میں مگن ہے۔ میری آج کی یہ تحریر اس کان کن کے نام جس کی ساری عمر سونے کی کان میں کام کرتے گزری ہے مگر اس کو اپنی بیٹی کی شادی پر بهی سونے کی بالیاں میسر نہیں آ پاتیں۔ میری یہ تحریر اس بے حس قوم کے نام جہاں ہر سال یکم مئی بہت اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ ہر سال سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دفاتر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ الغرض مزدور کے علاوہ سبھی مزدور کے نام کی چھٹی مناتے ہیں۔ یہ تحریر اس شعبدہ باز معاشرے کے نام جہاں ہر سال یوم مزدوراں کے نام پر مارکیٹیں اور کاروباری مراکز بند کیے جاتے ہیں، مزدور کے حق میں جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں مگر وہاں آج تک مزدور کے حالات نہیں بدلے اور وہ حالات کی چکی میں بدستور پستا چلا جاتا ہے۔

ارے ارے کیا ہوا؟ آپ کو کیا لگتا میں جذباتی کر رہا ہوں؟ نہیں نہیں۔ جناب! میں جانتا ہوں کہ ہم احساسات و جذبات سے عاری لوگ ہیں، اس لیے یہ غلطی نہیں کروں گا۔ ہم میں اگر احساس اور جذبات ہوتے تو آج ہم دولت کی ہوس میں اس قدر اندهے نہ ہو چکے ہوتے کہ دولت کمانے کی خاطر خیر وشر کی تمیز ہی بهول جاتے۔ اگر احساس ہو تو ہم اپنی دولت میں حاجت مندوں اور محتاجوں کو حصہ دار سمجهیں لیکن یہاں تو الٹا غریب کا حق دبایا جاتا ہے۔ اس کی حالت ابتر کی جا رہی ہے۔

یہ کیپیٹلزم جیسے فرسودہ نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ غریب اور محنت کش کے گهر کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا اور دوسری طرف امیر شہر کی میز پر تین وقت رنگا رنگ کهانوں کا انبار نظر آتا ہے۔ اس منظر کو علامہ اقبال اپنی شاعری میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی

فطرت‌ اسکندری اب تک ہے گرم ناؤنوش

اگر ہم احساس بهری نظر سے ایک بار اس بوڑهے مزدور کو دیکھ لیں جو اپنی عمر کا لحاظ کیے بنا منوں بوجھ تلے دبا چپ چاپ مصروف مشقت ہے تو خدا کی قسم ہم پگهل کر رہ جائیں، مگر ہمیں کیا لگے بابا جی سے۔ کون سوچے ان کے بارے اور کیوں کر سوچے۔ مجبوراً میں کہوں گا کہ

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

صحت، تعلیم اور محبت ہر بچے کا حق ہے، اگر ہم میں ذرا سا بهی احساس ہو تو میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ورکشاپ پر بیٹها بچہ سکول میں محو تعلیم ہوتا۔ اگر ہمیں احساس ہوتا تو یہ ننهے بچے فکر معاش اور زندگی کی تلخیوں سے آزاد ہوتے۔ ہماری بے حسی کا حال کچھ یوں ہے کہ اوئے چهوٹے دو چائے لا دے، ایک لٹر دودھ سوڈا لے آ، ٹائر کی ہوا چیک کر دے سے آگے ہم ان سے کلام تک نہیں کرتے۔ ہم سوچتے ہی نہیں کہ ان کو بهی پیار کی ضرورت ہے۔

ننهی عمروں میں محروم شفقت، مشقوں کا شکار بچے

خبر ہے تم کو ترس رہے ہیں محبتوں کو بے شمار بچے

کیا ہم نے کبهی سوچا ہے کہ ہمارا مزدور شب وروز کی محنت کے باوجود بهی کیوں دشواریوں میں گهرا ہوا ہے؟ کیوں امیر اور محنت کش کے درمیان خلا بڑهتا ہی چلا جا رہا ہے؟ ضرور سوچیے گا اور صرف سوچیے گا ہی نہیں بلکہ کچھ عملی طور پر کرنے کی بھی کوشش کریے گا کیونکہ دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا کندھوں سے بوجھ کم کرو صاحب۔

پاکستان کی اکثریت مسلمان طبقہ ہے تو اس سلسلہ میں کہنا چاہوں گا کہ غور کیجیے گا کہ بحثیت مسلمان ہمیں ہمارا دین اس بارے کیا راہنمائی دیتا ہے؟ کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے اسلام کا تو مطالبہ ہے کہ مزدور کو اس کی جائز اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ اس کا حق نہ کهاؤ، اس کو اپنے جیسا لباس پہننے کو دو، اور اس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کرو کیونکہ تمہارے نوکروں کو تمہارے ماتحت کر کے اللہ پاک تمہارا امتحان لے رہا ہے۔ اگر اسلام یہ کہتا ہے تو ہم کس حد تک اس پر عمل پیرا ہیں؟ عبادات، صوم و صلواتہ سے باہر معاملات کی حدود میں ہم کتنے سچے مسلمان ہیں؟ اللہ ہمارے ساتھ بهلائی کا معاملہ کرے اور ہمیں اپنے بتائے ہوئے رستے پر چلائے۔ آمین