• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, جنوری 31, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

شوقین مزاجی، چسکا اور اکتاہٹ: ٹھیکے دار کی بیٹی سے سنتھیا رچی تک

حسن ساجد by حسن ساجد
جون 9, 2020
in حقوقِ نسواں, عوام کی آواز, معاشرہ, میڈیا
8 0
1
شوقین مزاجی، چسکا اور اکتاہٹ: ٹھیکے دار کی بیٹی سے سنتھیا رچی تک
44
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

برصغیر پاک و ہند کے لوگ اپنے مزاج اور خصوصیات کے باعث باقی دنیا سے ذرا مختلف ہیں۔ ہم ان کی ثقافت اور روایات کو دیکھ کر ان کے ذوق اور حسن نظر کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ رنگ برنگے دیدہ زیب ملبوسات، عالی شان بلند و بالا عمارتیں اور چٹ پٹے چٹخارے لذیذ پکوانوں سے سجے دستر خوان ان کی شوقین مزاجی اور حسن نظر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں اس خطے کے باسیوں کے باذوق ہونے کے چند ثبوت ایسے بھی ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا مناسب نہ ہو گا۔

ذائقہ شناسی کی بات کی جائے تو شاید ہی دنیا میں ہمارے جیسا ذائقہ شناس تاریخ کو میسر آ سکے۔ اہل نظر کو ہمارے خطے جیسے لذیذ پکوان اور مصالحے دار کھانے پوری دنیا میں اور کہیں بھی میسر نہیں آ سکتے۔ ذائقہ شناسی اور چٹخارہ سے ہماری ازلی الفت نے ہمارے خطے میں مصالحہ جات کی اہمیت کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ اب اس خطے کے باسی کوئی خبر بھی مصالحہ جات اور چٹخارے کے بنا قبول نہیں فرماتے۔ اور اللہ سلامت رکھے ہمارے ٹی وی چینلز کو بھی جو اپنی دکانداری چمکانے کے لئے سنسنی اور مصالحہ جات سے بھرپور خبریں اپنے ناظرین تک بروقت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہر وقت جتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے غیر ضروری مصالحہ جات کے استعمال سے کھانے کی غذائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اس کے معدے پر بھی مضر اثرات پڑتے ہیں بالکل اسی طرح کثافتوں میں گری ہوئی خبریں زرد صحافت کا پلندہ اور حقائق سے عاری ہوتی ہیں۔

RelatedPosts

سوشل میڈیا پر خواتین سیاست دانوں کی کردار کشی روکنے کے لئے قوانین کی ضرورت ہے

روایتی میڈیا کے دن گنے جا چکے، متبادل میڈیا صحافت کا مستقبل ہے

Load More

زرد صحافت کے اس دور میں خبر کو ہم تک پہنچانے کے لیے لیے میڈیا کے نمائندے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس کے دوران اصل حقائق اور سچائی مکمل طور پر نظر انداز ہو جاتے ہیں اور ہمارے حصے میں متعلقہ خبر سے منسلک صرف کثافتیں ہی آتی ہیں۔ مگر میرے خیال میں حق شناسی کے حصول میں رکاوٹ کی بڑی وجہ میڈیا اور ٹی وی چینلز کی بجائے ہمارا اپنا مزاج ہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم حق شناسی کی بجائے شوقین مزاجی اور ذائقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے تو میں ہمارے اس اجتماعی رویے کو ادبی گنجائش نکال کر “لکیر کا فقیر” یا پھر “من موجی” ہونے کا نام دوں گا، کیونکہ ہم ایسے انوکھے لاڈلے ہیں جو خبر سے زیادہ شغل اور افادیت سے زیادہ چسکا پر نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے دو انفرادی نوعیت کے واقعات وقوع پذیر ہوئے، جنہیں ہم سب کی شوقین مزاجی نے اس قدر بڑھاوا دیا کہ کرونا وائرس کی ہلاکت، معیشت کی لرزش اور خارجہ تعلقات جیسے اہم قومی معاملات ان واقعات کی مشہوری کے نیچے دب کر رہ گئے۔ عوام اور ہمارا میڈیا ان واقعات کے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑ گیا کہ رہے اللہ سچے کا نام۔

سوشل میڈیا اور میڈیا “ٹھیکےدار کی بیٹی”، “کرنل کی بیوی” اور “عظمیٰ کو انصاف دو” جیسی عظیم قومی مہمات سے سج گیا۔ حامیوں اور ناقدین کی فوجیں کمربستہ ہوکر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئیں۔ اور پھر ٹی وی چینلز، پریس میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایسی ہوائی فائرنگ ہوئی کہ ہر خاص عام اس کی زد میں آگیا جن کا ان واقعات سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور ہماری اس قدر گہری دلچسپی کے باعث متعلقہ کیسز میں انصاف کے تقاضے بری طرح متاثر ہوئے (جو کہ عام حالات میں شاید کم ہوتے)۔

اچھا جی یہ تو بات ہوگی ہماری شوقین مزاجی اور ہمارے چسکورے پن کی۔ اب ذرا ہمارا دوسرا اہم رویہ زیر بحث لاتے ہیں۔ ہماری طبیعت میں شوقین مزاجی کی انتہا ہونے کے ساتھ ساتھ اکتاہٹ اور بیزاری بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ہم چیزوں سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں اور دستبرداری اختیار کر لیتے ہیں۔ میں انفرادی طور پر ایسے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جو اپنے مقصد سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ وہ مستقل مزاجی سے حصول مقصد کی جانب اپنا سفر مکمل جاںفشانی سے جاری رکھتے ہیں اور بالآخر اپنی پسندیدہ سرگرمی کو لگن اور دیانتداری سے انجام تک پہنچاتے ہیں۔ مگر ہماری اجتماعی حالت بڑی مایوس کن ہے کہ ہم مستقل مزاجی سے کوسوں اور فرسخوں کی دوری پر ہیں۔ ہم ہر چڑھتے چن (چاند) کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں اور پھر اگلے چن کے انتظار میں نگاہیں ٹکا لیتے ہیں۔ پھر جونہی اگلا چن نظر آتا ہے ہم اس کی جانب مکمل متوجہ ہوکر بڑی بے مروتی سے پچھلے چن سے مکمل بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہم نے بڑی شوقین مزاجی سے کرنل کی بیوی پر مہم چلائی مگر حقائق جاننے کی زحمت کئے بغیر ہم ٹھیکیدار کی بیٹی کی صورت میں نمودار ہونے والے نئے چاند کی جانب متوجہ ہوگئے اور ساتھ ہی اپنے نئے چن کی تلاش بھی شروع کر دی۔ خوش قسمتی اور میڈیا کی مہربانی سے ہمارا نیا چن (شکل و صورت کے اعتبار سے بلکل بھی نہیں کہہ رہا ایویں کہیں نیا کٹا نہ کھول دیجیے گا) سنتھیا رچی کی صورت میں جلوہ افروز ہوا تو ہم اگلے پچھلے سارے چن بھلا کر مکمل دیانتداری سے اس نئے چن کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اپنے پرانے چنوں سے ہم اس قدر بیزار اور اکتائے ہوئے نظر آئے کہ ہم نے یہ جاننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ یہ چن کیوں چڑھے؟ کیسے چڑھے؟ کس نے چڑھائے؟ یعنی یہ واقعات کیوں پیش آئے؟ ان سے منسلک حقائق کیا ہیں؟ ان کے شہ سرخیاں بننے کی وجوہات کیا ہیں؟

اب مجھے قوی امید ہے کہ ہم جلد ہی اپنے اس نئے چن (چاند) سے بھی بیزار ہو جائیں گے اور اس سے مکمل بے نیازی اور اکتاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کسی نئے چن (چاند) کے منتظر ہوں گے۔

مسئلہ چنوں کے چڑھنے یا غروب ہونے کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ ہماری انفرادی و اجتماعی ترجیحات اور رویوں کا ہے۔ انفرادی ترجیحات مل کر مجموعی صورتحال واضح کرتی ہیں۔ اور قوموں کے بننے یا تباہ ہونے میں لوگوں کے رویے کی سنجیدگی کا بڑا اہم اور کلیدی کردار رہا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ہمیشہ سے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک ترقی اور وقار کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری شوقین مزاجی اور منچلا پن ابھی تک ختم نہیں ہو رہا اور ہم سنجیدگی اور احساس ذمہ داری سے ابھی بھی دور ہی بھاگ رہے ہیں۔

پاکستانی قوم کو اپنے رویے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں احساس ذمہ داری، شعور اور سنجیدگی کو اپنانا ہوگا اور ہمیں اپنی ترجیحات کو قومی مفادات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔ شعور، سنجیدگی، احساس ذمہ داری اور حصول مقصد سے پیار کئے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ لہذا اگر ہم اقوام عالم میں اپنا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام رویوں کو ترک کرنا ہوگا جو ہمارے قومی وقار کے منافی ہیں اور ان تمام عادات و اطوار کو اپنانا ہوگا جو قومی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

پاکستان کی تقریبا 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی اور تنزلی میں نوجوان نسل کا کردار ہمیشہ سے کلیدی اور اہم رہا ہے۔ اگر نوجوان نسل غیر سنجیدہ ہو تو قوم کا مستقبل تاریک اور بھیانک ہوتا ہے لیکن اگر نوجوان نسل باشعور، سنجیدہ، مخلص اور ذمہ دار ہو تو وہ قوم کو بام عروج پر پہنچا دیتی ہے۔ میری پاکستان کی نوجوان نسل سے درخواست ہے کہ آپ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں اور اپنی ترجیحات کو قومی مفادات کی روشنی میں ترتیب دیں۔

دوسری جانب میری میڈیا چینلز سے گزارش ہے کہ زرد صحافت سے لگی لپٹی اور سنسنی خیز خبروں کی بجائے حقائق پر مبنی درست خبریں عوام تک پہنچا کر ریاست کا ایک مہذب اور ذمہ دار ادارہ اور اہم ستون ہونے کا ثبوت دیں۔ میڈیا اس ٹیکنالوجی کے جدید دور میں نوجوان نسل کی ملکی و قومی مفادات سے ہم آہنگ کردار سازی میں اہم کردار ادا کرے۔ کیوںکہ باشعور، ذمہ دار، سنجیدہ اور پڑھی لکھی نوجوان نسل کی تیاری اور نوجوان نسل کی کرداری سازی میں جو کردار میڈیا ادا کرسکتا ہے وہ کوئی اور ادارہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔

اگر ہم سب نے اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی نہ لائی اور سنجیدگی اختیار نہ کی تو جان لیجیے کہ تاریخ کا چہرہ بہت کرخت اور سنجیدہ ہے۔ ہم تاریخ کی کتاب کا گرد آلود صفحہ بن جائیں گے جسے وقت کا قاری بہت بے دردی سے مسل کر آگے گزر جائے گا اور داستان تک نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں۔

Tags: پاکستانی عوامسوشل میڈیاشوقین مزاجیعوامی رویہقومی تربیتمیڈیا
Previous Post

کرونا کے خلاف جنگ: اتحاد و تعاون انسداد وبا کے لئے عالمی برادری کے پاس سب سے طاقتور ہتھیار ہے، چین

Next Post

’لاک ڈاؤن کرونا وائرس کو نہیں روکتا‘: سائنسی تحقیق نے وزیر اعظم کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا

حسن ساجد

حسن ساجد

Related Posts

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

by حسنین جمیل
جنوری 19, 2023
0

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور...

بیٹی ایک رحمت ہے، مگر ظالم سماج نے اس کو زحمت بنا دیا ہے

بیٹی ایک رحمت ہے، مگر ظالم سماج نے اس کو زحمت بنا دیا ہے

by انعم ملک
جنوری 7, 2023
0

الحمداللہ میرے رب نے مجھے اس دنیا میں رحمت بنا کر بھیجا۔ جب آنکھ کھلی تو کسی کی بیٹی تو کسی کی...

Load More
Next Post
’لاک ڈاؤن کرونا وائرس کو نہیں روکتا‘: سائنسی تحقیق نے وزیر اعظم کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا

’لاک ڈاؤن کرونا وائرس کو نہیں روکتا‘: سائنسی تحقیق نے وزیر اعظم کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا

Comments 1

  1. Nasir maghiana says:
    3 سال ago

    اتنی فضول تحریر میں نے آج تک نہیں پڑھی.. افسوس اس انتخاب پر… اللہ حافظ نیادور

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 30, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In