شادی ہالز مالکان کا 13 جولائی کو ملک بھر میں ایک ساتھ احتجاج کا اعلان

شادی ہالز مالکان کا 13 جولائی کو ملک بھر میں ایک ساتھ احتجاج کا اعلان
شادی کسی بھی انسان کی زندگی کا ایک یادگار لمحہ ہوتی ہے۔ دوست، رشتہ دار، خاندان سب شامل ہو کر خوشی کے ان لمحات کو دوبالا کرتے ہیں اور لڑکی اور لڑکے کی نئی زندگی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ عید کے بعد دو ماہ شادیوں کا سیزن عروج پر ہوتا ہے۔

شادی کی تقریب سے ہزاروں لوگوں کا روزگار منسلک ہوتا ہے۔ سنار، کپڑا، درزی، حجام، سلون، مستری، ٹرانسپورٹ، مووی اور فوٹوگرافی، میرج ہال، پھول، سے لے کر ڈھول والوں اور بھانڈوں کا روزگار بھی اسی شعبہ سے منسلک ہوتا ہے۔ نان، گوشت، قیمہ، مصالحہ جات، چینی سمیت اشیا خورد نوش سے منسلک افراد کی بھی چاندی ہوتی ہے۔

کرونا کیا آیا، دنیا ہی بدل گئی۔ کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہوا، وہی شادی بیاہ کی تقریبات کی منسوخی سے کتنے ہی لوگ بے روزگار ہو گئے۔ مارچ 2020 سے لاک ڈاؤن کے بعد شادی کی تقریبات پہ پابندی ہے۔

پچھلے دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی، کرونا کی وجہ سے ملاقات کرنا ممکن نہیں تھا۔ دوست شادی ہال کا مالک ہے، ملتے ہی پریشان دیکھائی دیے۔ کہنے لگے میاں کرونا تو ہمیں برباد کر گیا۔ لڑکے بیروزگار ہیں، ایک بڑا طبقہ اس شعبہ سے منسلک ہے۔ حکومت کی طرف سے سمارٹ لاک ڈاؤن سے کچھ تسلی ہوئی تھی شاید ہمیں کام مل جائے مگر تاحال پابندی کا سامنا ہے۔

کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خوشیوں کے مواقعوں کو گہن لگا دیا ہے۔ اب مختلف کاروباری شعبے تو کھل گئے ہیں لیکن شادی ہالز کا کاروبار تاحال بندش کا شکار ہے۔ ملک بھر میں شادی ہالز کی بندش کا معاملہ سنگین ہو چکا ہے، اس سلسلے میں شادی ہالز مالکان کی ایسوسی ایشن نے ہنگامی اجلاس طلب کر کے 13 جولائی کو ملک بھر میں ایک ساتھ احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔

کراچی میں منعقدہ اجلاس میں ملک بھر کے شادی ہالز ایسوسی ایشنز کے نمائندگان نے آن لائن شرکت کی، جن سے شادی ہالز کھولنے کے معاملے پر مشاورت کی گئی، اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا اور احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے پر غور کیا گیا۔ اس حوالہ سے میرے دوست ملک ارشد سخت پریشانی کا شکار ہیں، جب ان سے پوچھا تو کہنے لگے شادی ہال سے وابستہ ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور ان کے اہلخانہ فاقوں پر مجبور ہیں۔ مزید پابندی ملازمین کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ جب سب کاروبار کھلے ہیں تو شادی ہال بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

صوبائی حکومت فوری طور پر شادی ہالوں کے لئے بھی ریسٹورنٹس طرز کا طریقہ کار وضع کر کے ہمارا معاشی قتل عام بند کیا جائے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے زندگی سے بڑھ کے کچھ نہیں مگر بچوں کے لئے روزگار بھی اس احتیاط سے بڑھ کے ضروری ہے۔ ایس او پی کی پابندی کے ساتھ شادی بیاہ کی تقریبات کو اجازت دی جائے اس سے منسلک افراد روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ گرتی کاروباری صورتحال کو سنبھالنے کی ضرورت ہے، کرونا کی وجہ سے بہت سے لوگ کاروبار چھوڑ کر کے گھروں میں بیٹھ چکے ہیں۔ شادی ہال، دوکان اور مکان کا کرایہ دینا مشکل سے مشکل ترین ہو رہا ہے۔ وبا تو گزر جائے گی، حالات بھی قابو میں آجائیں گے، مگر وبا کے بعد کے حالات یکسر مختلف ہوں گے۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔