نظم: سنبھل کے چلنا

نظم: سنبھل کے چلنا
سنبھل کے چلنا

‏کے میرے مندر کی سیڑھیوں پے

‏کسی کے ہاتھوں سے ایک شیشا

‏گرا تھا جس کے ریزے بھکر گئے ہیں

وہ خوبصورت جوان سی لڑکی

‏کے جس نیلے نین میں پنہاں محبتوں کے نئے فسانے‏

وہ جب بھی پوجا پاٹ کرنے دیا جلائے

‏پہنچتی مندر کی سیڑیوں پے

‏تو بیٹھ جاتی وہیں پر آکے

‏وہ اپنے اندر کے مندروں میں رکھے خداؤں کو بھولے پن میں سجود کرتی

وہ نیلگر کو نا دیکھتی تھی اک آنکھ بھر کے

‏وہ روز کہتی تھی نیلگر کو خموشیوں میں

‏کے اس نگر سے کہیں بھی جاؤ تو یوں نا جانا

‏کے آنے والے دنوں کی گردش تمہاری بپتا کی قینچی سے میرے دوپٹے کی دھجیوں کو کتر ہی ڈالے

‏اور میرا درپن نا چھوٹ جائے

‏میری لرزتی انگلیوں سے

سنبھل کے چلنا