علم بڑی دولت ہے یا نہیں مگر تعلیم میں بڑی دولت ہے

علم بڑی دولت ہے یا نہیں مگر تعلیم میں بڑی دولت ہے
ناامیدی سے امّید کا چراغ جلانا، مایوسیوں کی تاریکیوں میں نوید سحر ڈھونڈنا اور زحمت میں رحمت تلاش کرنا باشعور سمجھدار اور دانا انسان کا خاصہ ہے۔ دنیا کا ہر شخص اپنے لئے خیر اور بھلائی سوچتا اور چاہتا ہے۔ مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں انسان اس حد تک خود غرض ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات پر بالکل بھی سمجھوتا نہیں کرتا اور اپنے مفاد کے لیے وہ خیر اور شر کی تمیز میں فرق تلاش کرنے کی زحمت میں بھی نہیں پڑتا۔

انسانیت، ہمدردی، ایثار اور احساس جیسے جذبات اگر اس کے ذاتی مفاد کے راستے میں حائل ہوں تو وہ انہیں یکسر روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ ویسے تو آج کل ہم سبھی بلا کے سمجھدار اور مفاد پرست ہیں مگر یہ خوبی کاروباری حضرات میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ انسانیت اور احساس سے زیادہ منافع پر توجہ مرکوز کیے کاروباری حضرات کی نظر میں اپنے کاروبار کی وسعت اور زیادہ منافع کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ بالخصوص اگر پاکستانی تاجر برادری کی بات کی جائے تو ان کاروباری شخصیات میں زیادہ نفع کے طمع اور لالچ کے ساتھ ساتھ سفاکیت اور بے رحمی کی اضافی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

یہ حضرات بوقت ضرورت چیزوں کا مصنوعی بحران پیدا کر کے انہیں منہ مانگی قیمت پر فروخت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ ہر زحمت میں سے اپنے لئے رحمت نکال لیتے ہیں۔ اب کہ جب پوری دنیا کرونا جیسی بڑی زحمت سے دوچار ہے تو ہمارے سفاک کاروباری حضرات بڑا ہاتھ مارنے اور اپنے دھندے میں کیونکر پیچھے رہیں گے۔ عیدین، رمضان اور دیگر مواقعوں پر عوام کی کھال اتارنے والے ہر قسم کے کاروبار سے منسلک کاروباری شخصیات نےاب بھی حسب توفیق عوام کو لوٹا ہے۔ مگر اس کرونا وائرس میں اصل لاٹری شعبہ تعلیم کے کاروباریوں کی لگی ہے۔

"تعلیم بہت بڑی دولت ہے"، "علم بہت بڑا خزانہ ہے" ایسے جملے ہیں جو عرصہ دراز سے بولے، سنے، پڑھے اور پڑھائے جارہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے چند ایک کے سوا ہمارے طالب علموں کو اس کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ وہ اپنی تمام توجہ دیگر سرگرمیوں سے ہٹا کر تعلیم پر مرکوز کر سکتے۔ مگر ہمارے ہاں ایک ایسا سیانا طبقہ موجود تھا جس نے اس جملے کا تجزیہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ تعلیم بڑی دولت ہے یا نہیں مگر تعلیم میں بڑی دولت ہے اور علم میں ایک خزانہ چھپا ہوا ہے۔ اس طبقے نے اس جملے پر عملدرآمد کرتے ہوئے پورا پورا استفادہ حاصل کیا۔ جی ہاں وہ سیانا طبقہ یہاں کا کاروباری مافیا تھا جسے تعلیم میں بھی ایک بڑا کاروبار نظر آیا۔

اس نے ملک و قوم کے بچوں کے مستقبل کو سوچے بنا، تعلیم کے نام پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ یہ طبقہ اتنا سفاک ہے کہ جب ملک اور قوم کرونا وائرس سی پیدا شدہ معاشی بحران سے نمبرد آزما تھی تو اس نے اپنے ذاتی مفادات اور اپنی کاروباری وسعت کی خاطر قوم کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا۔

کرونا کی وجہ سے جہاں عوام اس وقت معاشی بحران کے ہاتھوں عاجز ہے وہاں یونیورسٹیز سے لے کر گلی محلے کے سکولوں اور اکیڈمیز تک کے پرائیویٹ تعلیمی مافیا نے ذاتی نفع اور مفاد کی خاطر عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی مافیا کی ذاتی مفادات اور زیادہ منافع کمانے کے لالچ پر مبنی تعلیمی پالیسیوں کی وجہ سے طلبا و طالبات ٹیشن، ڈپریشن اور اضطراب کا شکار ہیں۔ ان کے والدین اضافی معاشی بوجھ کی وجہ سے الگ پریشان ہیں۔ کرونا کی وجہ سے گھر گھر تعلیم کی فراہمی کے نام پر پرائیویٹ تعلیمی مافیا جس بے رحمی سے طلبا و طالبات کو لوٹ رہا ہے اس کے بعد یہ سوچنا بعید نہ ہوگا کہ تعلیم اب عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے تعلیم پر قابض اس پرائیویٹ کاروباری مافیا نے بیس روپے کا ماسک اپنے متعلقہ سکول کالج یا یونیورسٹی کی مہر لگا کر ڈھائی سو سے پانچ سو روپے میں فروخت کیا۔ پھر سکول کی سطح پر موجود سفاک کاروباریوں نے بچوں کے ہوم ورک کے نام پر سو یا دو سو روپے کی فوٹو کاپیاں پندرہ سو سے چار ہزار روپے میں فروخت کیں۔ کرونا کے باعث ادارے طویل عرصہ تک بند ہوتے دیکھ کر تعلیم پر قابض اس کاروباری مافیا نے پرائیویٹ یونیورسٹی سے لے کر سکول کی سطح تک آن لائن لرننگ کے نام پر ایک نیا کاروباری سودا تلاش کر کے طلبہ کو ایک نئی ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔

آن لائن کلاسز لینا اور آن لائن امتحانات دینا طلبہ پر مسلط کر دیا گیا جس کے باعث طلبہ میں ڈپریشن اور ایک ذہنی کوفت کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آن لائن لرننگ کو لے کر طلبہ میں بہت بڑا اضطراب پایا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تیز انٹرنیٹ کنکشن کی عدم دستیابی ہے۔ پاکستان ایک دوسری یا تیسری دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں آج بھی کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ جنوبی پنجاب، وسط بلوچستان یا سندھ کے تھر جیسے علاقوں کی طرف نکلیں لے تو کئی علاقوں میں آپ کو انٹرنیٹ سروس تو دور کی بات ٹیلی فون کنکشنز کے سگنلز بھی میسر نہیں آئیں گے۔ حتی کہ اکثر و بیشتر جب بھی کسی بڑے شہر سے تھوڑا دور مضافات میں نکلیں تو سب تیز اور وسیع تر نیٹ ورک کا دعوی کرنے والی ٹیلی فون کمپنیوں کے سگنلز بھی مائیکروسکوپ کی مدد سے تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ تو ایسی صورتحال میں آن لائن کلاس لینا، کوئز یا امتحان دینا طلبہ کے لیے کوفت، ذلالت اور اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

طلبا و طالبات میں اس اضطرابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر آن لائن کلاسز اور امتحانات کے متعلق احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ سوشل میڈیا پر طلبہ کو پیش مشکلات سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر بھی دکھائی گئیں کہ جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح پسماندہ علاقوں میں موجود طلبہ کو آن لائن کلاسز کے نام پر پر ذلت کاٹ رہے ہیں۔ مگر نہ جانے کس بے حسی اور مجبوری کے باعث ہائر ایجوکیشن کمیشن(HEC) یا کسی بھی تعلیمی انتظامی ادارے کی طرف سے اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی مجبور و مبحوس طلبہ کمیونٹی کے حق میں کسی بھی اعلی عہدیدار کی جانب سے دو حرف تسلی کے سننے کو ملے۔

اب جہاں انٹرنیٹ موجود ہے وہاں آن لائن لرننگ کے عذاب کی بات کر لیتے ہیں۔ بچوں کے والدین کو آن۔لائن لرننگ کے نام پر ایک اضافی معاشی بوجھ کا سامنا ہے جس میں مہنگے انٹرنیٹ پیکیجز، اینڈرائیڈ فونز یا ٹیبلٹ کا انتظام وغیرہ شامل ہیں۔ ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ آج کے جدید ترین دور میں بڑی کلاسوں میں پڑھنے والے سکول کے بچوں اور کالجز و یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کے پاس اینڈرائیڈ فونز موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کسی ایک گھر میں میں تین سے چار چھوٹے بچے موجود ہیں تو سوچیے ان کے والد کے لیے بیک وقت تین عدد نئے موبائل فونز کا انتظام کرنا کس قدر مشکل ہوگا۔ آن لائن ایجوکیشن کے ضمن میں تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر آن لائن لرننگ اتنی ہی اہم ہے تو حکومت سرکاری اداروں کو تالا لگا کر کیوں بیٹھی ہوئی ہے؟ وہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہو رہا؟ اور اگر وہاں آن لائن سٹدی کی ضرورت نہیں ہے تو پھر اس فرق کو مٹانے میں حائل بڑی مجبوری کیا ہے؟ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان طلبہ و طالبات کو سکول کالجز اور یونیورسٹیز بند ہونے کے باوجود مکمل فیس ادا کرنے کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ کئی اداروں میں تو سکول بند ہونے کے باوجود بچوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت کے نام پر لی جانے والی رقم کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے۔

ان پانچ یا چھ ماہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ تعلیمی مافیا نے اپنے ذاتی کاروباری حربوں اور دیگر کاروباری مافیا کے ساتھ باہمی اشتراک کرکے جس بے دردی سے سے طلبا و طالبات کو لوٹا ہے وہ سفاکیت اور ظلم میں اپنی مثال آپ ہے۔ گلی کے حشرات الارض سے لے کر سمندر کے مگرمچھوں تک سبھی نے اپنی طاقت اور بساط کے مطابق مظلوم عوام کو ڈسا ہے۔ اس سارے ماحول میں سب سے زیادہ اذیت ناک بات ہمارے ریاستی اداروں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت ملک میں نظام تعلیم کو کنٹرول کرنے والے تمام ادارے اور چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کا وفاقی و صوبائی قلمدان سنبھالے سیاستدانوں سمیت تمام اعلی عہدے دار اس وقت کاروباری مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ یہ دارے اور ان میں بیٹھے لوگ کسی بھی قسم کا فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی و صوبائی وزارت تعلیم میں بیٹھی ہوئی کالی بھیڑوں اور کاروباریوں کو بچوں اور قوم کے مستقبل سے کہیں زیادہ لمز، یو ایم ٹی (UMT) یو سی پی (UCP) ایل جی ایس (LGS) اور دیگر اداروں میں موجود اپنے شیئرز عزیز ہیں۔ لہذا وہ مکمل ایمانداری سے اپنی ساری توجہ کاروباری مافیا کو نواز کر ملک میں نظام تعلیم بگاڑنے اور اپنا مستقبل سنوارنے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ 73 سالوں میں ہمارا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جہاں ریاستی رٹ قائم ہوسکی ہو۔ ہر حکومتی ادارہ کسی نہ کسی مافیا کے سامنے عاجز نظر آتا ہے۔ پٹرول مافیا، شوگر مافیا، آٹا مافیا اور اور سیمٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بننے والے ہینڈسم وزیراعظم سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ وہ تعلیم کے شعبہ میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا ہرگز نوٹس نہ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ بچوں کو سکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے نکل کر کارخانوں، ڈھابوں اور ورکشاپوں کا رخ کرنا پڑ جائے۔ ہاں البتہ ملک کی باشعور اور محب وطن نوجوان نسل سے میں گزارش کروں گا کہ اس معاملہ پر باہمی اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کریں اور اپنے حق کے لیے خود آواز بلند کریں۔ "God helps those who help themselves" کے اخلاقی سبق کا عملی مظاہرہ کرنے کا وقت ہے، کیونکہ ہینڈسم حکومت کا پرانا ٹریک ریکارڈ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان سے کسی قسم کی اپیل کرنا یا خیر اور بھلائی کی امید رکھنا سراسر بیوقوفی اور پاگل پن ہے۔