ہم باچا خان بابا کے پیروکار کیوں ہیں؟

ہم باچا خان بابا کے پیروکار کیوں ہیں؟
بحثیت باچا خان بابا کے پیروکار ہم سب لر و بر عدم تشدد کے حامی ہیں۔ بابا کہتے ہیں تشدد سے نفرت اور عدم تشدد سے محبت پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، بابا کے فلسفے عدم تشدد کے بغیر توازن سے نہیں چل سکتا اور نہ اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔

معاشرہ کیسا ہونا چاہیے؟

معاشرے کے ساتھ عدم تشدد کا لفظ لازم و ملزوم ہے۔ عدم تشدد کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا نیا کرنا چاہیے جو ہمارے نئی نسل کی ذہن سازی اور اس میں یقین کا مادہ پیدا کر سکے۔ یقین کے حوالے سے میں نے ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی تھی۔ وہ کہانی کچھ اس طرح تھی کہ ’’اگر ہم بچے کو ہوا میں پھینکیں تو بچہ ہنستا ہے۔ یہ کیوں ہنستا ہے؟ یہ اس لئے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ جس نے اس کو پھینکا ہے وہ اس کو پکڑے گا بھی، یہ کیا ہے؟ یہ یقین ہے‘‘۔

سب سے اہم چیز جس کی کمی میں محسوس کرتا ہوں وہ رویوں میں برداشت ہے۔ رویے سے ہی میری نظروں میں انسان کی شخصیت بے نقاب ہوتی ہے۔ اس لئے اپنے رویے کو بہتر بنانے کے لئے برداشت کرنا سیکھو! جو برداشت کرنے کا فن جانتا ہو وہ زندگی کی کوئی جنگ نہیں ہار سکتا تو پھر دوستو! برداشت کرنا سیکھ لو، اگر کامیابی چاہتے ہو۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ رشتے برداشت، صبر اور عزت کے محتاج ہوتے ہیں۔ رشتے کو بچانے کے لئے کمزور ہونا پڑے تو ہو جاؤ۔ رشتے تم سے صرف محبت چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ رشتوں میں دراڑیں مخلتف نوعیت سے شیطان پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم چاہیں تو ان دراڑوں کو مختلف طریقوں سے بند کر کے رشتوں کی وہ ہنسی دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔

ماضی کی ہزاروں مثالیں آپ لوگوں کو ملیں گی جن سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ رشتوں کے دراڑوں کو تعلیم یافتہ اور ہمارے بزرگوں نے کس طرح ختم کیا۔ کتابی باتوں سے مشاہدات ہزاروں درجے بہتر ہیں۔

ہمارا گاؤں جس کی نوجوانوں کی اکثریت اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن کچھ نوجوانوں کا انداز گفتگو تعلیم یافتہ طبقے والا نہیں لگتا کیونکہ وہ غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کا فرق نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تعلیم یافتہ ہونے کا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں۔ جس تعلیم سے انسان کو غلط اور صحیح میں فرق کرنے کی تمیز ہی نپ آئے۔

اکثر ہم بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ ہم تماشائیوں کے لئے تماشہ لگا لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تماشہ جو ہم نے لگا لیا ہے اس سے کسی کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ جذبات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور فری ہینڈ دینے سے گریز کریں تو ہر بار آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ آئینہ کسی بھی وقت نظروں کو دھوکہ دے سکتا ہے شاعر کہتا ہے۔

آئینہ ہی سب کو فریب دے رہا ہے
ہر شخص کو کہتا ہے تم بے مثال ہو

معاشرہ چاہے مہذب ہو یا غیر مہذب، اس میں بچے اور نوجوان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں لیکن غیر مہذب اور مہذب معاشرے میں ایک ہی بنیادی فرق ہوتا ہے کہ غیر مہذب معاشرے میں جب کوئی آپس میں لڑے تو اس معاشرے کے بڑے اس کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے لئے منفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو مہذب معاشرے میں بڑے یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کر لیتے ہیں کہ بچوں اور نوجوان خون سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس لئے اپنے بچوں کی اصلاح ہمیں خود کرنی چاہیے تاکہ کل ہمارے نوجوان مہذب معاشرے کے مہذب شہری اور عدم تشدد کے حامی بنیں۔