تھیٹر اداکار کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں آلہ کار نہ بنیں

تھیٹر اداکار کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں آلہ کار نہ بنیں
پوری دنیا میں برپا موذی وبا نے کاروبار زندگی کو بے انتہا متاثر کیا ہے اور لاکھوں انسانوں کی جانیں لی ہیں، دنیا بھر کی معیشت کو بڑا نقصان پنچایا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن جاری ہے تاکہ اس وبا پر قابو پایا جا سکے۔ چونکہ کرونا وائرس کی ویکسین موجود نہیں تھی، لہٰذا اس وبا سے نمٹنے کا طریقہ صرف لاک ڈاؤن تھا۔ ہر قسم کے معاملات زندگی کو بند کر دیا جائے، بڑے بڑے شاپنگ مال، بازار، دکانیں، پارکس، کھیل کے میدان، سکول، کالج، ریسٹورنٹ، سنیما گھروں اور تھیٹر ہالوں کو بند کر دیا گیا۔

یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوا ہے۔ ساری دنیا کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ دنیا کے دو بڑے فلمی مراکز ہالی وڈ اور بالی وڈ چار ماہ سے بند ہیں۔ چین، جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی اور جو اپنے جدید سنیما گھروں کے باعث ایک بڑی فلمی منڈی کا درجہ رکھتا ہے، سات ماہ کے بعد وہاں سنیما گھروں کو کھولا گیا۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ میں اربوں روپے کی لاگت سے تیار فلمیں نماش کے انتظار میں ہیں۔ بھارت میں کچھ علجت پسند فلم میکرز نے اکشے کمار اور اجے دیوگن جیسے صف اول کے اداکاروں کی فلمیں لکشمی بم اور بھوج کو آن لائن ڈیجیٹل طور پر ریلیز کر دیا ہے، جس کو فلم بینوں کی طرف سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا۔

کسی بھی فلم کے ہٹ اور فلاپ ہونے کی کسوٹی سنیما گھروں کے باہر عوام کے رش سے ہوتی ہے۔ فلم پر لگا سرمایہ سنیما، ڈیجٹیل، ٹی وی اور میوزک رائٹس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام رائٹس میں سنیما گھروں سے سب سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے اور فلمساز کو مالامال کرتی ہے۔ اجے دیوگن اور اکشے کمار جیسے بڑے سپر سٹارز کی فلمیں کسی طرح بھی صرف ڈیجیٹل ریلیز سے فائدہ مند نہیں ہو سکتیں۔ میری نظر میں یہ کوئی دانش مندانہ اقدام نہیں۔ فلم میکرز کو سنیما گھروں کے کھلنے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ اب جب کہ چین برطانیہ اور روس میں ویکسین کی تیاری کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور ترسیل کے عمل پر کام شروع ہو چکا ہے ایسے میں بالی وڈ کے یہ علجت پسند فلم میکرز تھوڑا اور انتظار کر لیتے تو اچھا تھا۔

گھر بندی کے اس وقت نے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دنیا بھر کے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے فنکار اور ہنر مند بے روزگار ہوئے ہیں۔ بھارت کے بڑے سپر سٹارز نے ان کی مدد کی، ان کے گھروں میں راشن تقسیم کیا۔ اکشے کمار اور سلمان خان اس نیک کام میں پیش پیش رہے۔ پاکستان جہاں لاک ڈاؤن سے پہلے ہی سنیما انڈسٹری بحران کا شکار تھی، وبا نے اس انڈسٹری کی کمر توڑ دی ہے۔ جہاں سال میں تیس سے چالیس فلمیں ریلیز ہوتی ہوں، وہاں سنیما انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے؟ سنیما گھروں کو تو ہر جمعے کو ایک نئی فلم چاہیے۔ عیدین کے موقع پر سنیما گھروں اور تھیٹر ہالوں میں عوام کا بہت رش ہوتا ہے۔ یہ کمائی کے دن ہوتے ہیں۔ فنکار اور ہنرمند کے روزگار کا سلسلہ چلتا ہے۔

پچھلے چند روز سے لاہور تھیٹر کے فنکار جن میں نسیم وکی اور افختار ٹھاکر نمایاں ہیں، حکومت وقت سے تھیٹروں کو کھولنے کا جائز مطالبہ ناجائز طریقے سے کر رہے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا میں وبا کے باعث سنیما گھر اور تھیٹر ہال بند ہیں مگر لاہور تھیٹر کے ان فنکاروں نے براہ راست وزیر اعظم عمران خان پر تنقیدی بیانات دینے شروع کر دیے جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی سے یہ سب کر رہے ہیں۔ کیا بھارت میں سنیما گھر اور تھیٹر ہال کھول دیے گئے ہیں؟ کیا بھارت کے فنکار وہاں کے پردھان منتری نریندر مودی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟

میں اپنے ان قابلِ احترام فنکاروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ الفاظ کے چناؤ میں رسوا نہ ہوں۔ اپنے جائز مطالبات کو ناجائز طریقے سے استعمال نہ کریں۔ یہ وبا پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ بھارت کی طرف دیکھیں، وہاں بھی سب بند ہے۔ لہٰذا کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ میری وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان سے گذارش ہے کہ محرم الحرام کے بعد تھیٹر ہال کھول دیں اور فاقہ کشی میں مبتلا فنکاروں کی مالی معاونت کریں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔