آج کے فراعین کے نام

آج کے فراعین کے نام
بھارتی پنجاب کے ایک گاؤں جاتی امرا سے لاہور آنے والے میاں محمد شریف نے اپنی شبانہ روز محنت سے جس کاروبار کو فروغ دیا وہ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قومیا لیا گیا۔ یوں اس خاندان پر ایک ناگہانی افتاد آ پڑی لیکن میاں شریف نے ہمت نہ ہاری اور بھٹو صاحب کی حکومت کے دوران ہی شریف گروپ آف انڈسٹریز کے تحت کاروبار کو ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف انہی میاں محمد شریف مرحوم کے بڑے صاحبزادے ہیں۔

ایک متمول خاندان میں آنکھ کھولنے والے نواز شریف کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں بھی میاں صاحب اپنی ذاتی کار سے کالج آیا جایا کرتے تھے جو اس زمانے میں بہت کم سننے میں آتا تھا۔ مندرجہ بالا حقائق جاننے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیاست سے کاروبار میں نہیں آئے بلکہ کاروبار سے سیاست میں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ دو دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین دفعہ ملک کے وزیر اعظم رہے لیکن کبھی خزانے سے تنخواہ نہیں لی بلکہ ہر بار کچن کا خرچہ بھی اپنے پاس سے ہی دیا اور اس کی تصدیق عمران نیازی وزیر اعظم ہاؤس کے کچن انچارج سے کر چکے ہیں۔

ایک ایسا شخص جس کے لئے مال و دولت کوئی معنی نہیں رکھتے اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ مال و دولت کے ذرائع بتائیں جب کہ وہ اشخاص جن کا بچپن اور جوانی مفلسی میں گزرے آج ارب پتی بن کر خود کو خاندانی دولتمند بتا رہے ہیں۔ میاں صاحب کا خاندان پاکستان کا واحد خاندان ہے جس نے ہر بار محنت کر کے اپنے کاروبار کو پیروں پر کھڑا کیا لیکن ہر بار اسے تباہ کیا گیا۔ یہ تباہی صرف اس خاندان کی ہی نہیں تھی بلکہ ان ہزاروں خاندانوں کی بھی تھی جو ان کے کاروبار سے منسلک رہے۔

نواز شریف پر ظلم کرنے والے یاد رکھیں کہ مشرف آج اس سر زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا جہاں کبھی وہ فرعون بنا پھرتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں فرعون، چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے بھی آئے جنہوں نے اپنی طاقت سے ایک عالم کو دہشت میں مبتلا رکھا لیکن ان کے عبرت ناک انجام سے اگر کوئی سبق سیکھتا تو خود کو خدا سمجھنے کی غلطی نہ کرتا۔ ہر طاقتور ظلم کرتے وقت یہ سمجھتا ہے کہ اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں اور یہی اس کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے کیونکہ اس کائنات کے رب کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا۔ آخر فنا، آخر فنا، بس رہے نام اللہ کا۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔