راولپنڈی رنگ روڈ کے متاثرین اور حکومت و انتظامیہ کی بے حسی

راولپنڈی رنگ روڈ کے متاثرین اور حکومت و انتظامیہ کی بے حسی
راولپنڈی رنگ روڈکے اطراف میں متاثرین پریشان اوربے چین ہیں۔ انتظامیہ مست ہاتھی کی طرح دھونس سے سب کر گزرنے پر کمربستہ ہے۔ پراپرٹی مافیاز الگ سے مورچہ زن ہیں۔ تکلیف اور نقصان میں وہ لوگ ہیں جن کی زمینیں، گھر، جائیدادیں رنگ روڈ کی زد میں ہیں اور ان کے ساتھ معاوضے کے نام پر کھلا فراڈ کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ، سرمایہ کار، کمپنیاں ملی بھگت سے زمینوں پر قبضہ اور اونے پونے زمینیں ہتھیانے کے درپے ہیں۔ رنگ روڈ متاثرین بے بسی سے مافیاز کے نرغے میں چیخ وپکار کرتے ہیں تو انہیں دھونس سے چپ کرایا جاتا ہے۔

رنگ روڈ کے سروے میں بھی بڑے بڑے مگرمچھوں کی ملی بھگت ہے۔ نقشہ اس طریقے سے بنایا گیا ہے کہ زرخیز اور قیمتی زمینیں اور کمرشل ایریاز کو دانستہ زد میں لایا گیا ہے تاکہ اونے پونے میں خریدا جائے جب کہ بنجر اور آبادیوں کے باہر حقیقی راستہ بنتا ہے۔ سروے میں بدنیتی صاف نظر آتی ہے۔ سابقہ ادوار میں رنگ روڈ منصوبہ آبادیوں سے باہر رکھا گیا تھا۔

موجودہ رنگ روڈ منصوبے کی ترتیب میں ملک ریاض جیسے پراپرٹی ڈیلروں، بھٹہ مالکان اور قبضہ مافیاز کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ جب کہ جی۔ ٹی۔ روڈ کے ساتھ متصل زمینیں، قبرستان، سکول، تالاب، لوگوں کے گھر، محلوں کے درمیان سے سڑک نکالی گئی ہے اور اس کا معاوضہ ڈیڑھ لاکھ فی کنال مقرر کیا گیا ہے جو کہ محض زمین ہتھیانے کی منصوبہ بندی ہے۔ جی ٹی روڈ کے ساتھ زمین کی مارکیٹ ویلیو تین کروڑ فی کنال ہے۔ جی ٹی روڈ کے قریبی دیہاتوں میں پچاس لاکھ سے 70 لاکھ فی کنال قیمت ہے لیکن انتظامیہ نے پورے موضع کا باٹا ریٹس ڈیڑھ لاکھ لگا دیا ہے۔

رنگ روڈ اور سروسز روڈ کے لئے ملحقہ زمینیں 50 سے 100 کنال کسانوں نے رضا کارانہ دی ہیں اور کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ اب انتظامیہ اور مافیاز نے رنگ روڈ کی اطراف میں سروسز ایریاز کے نام پر 600 سے 800 کنال اراضی ہتھیانے اور دھونس سے قبضہ کیا جا رہا ہے۔

انتظامیہ کے دیے گئے ٹائم فریم میں متاثرین نے اعتراضات داخل کرائے۔ جس پر لینڈز ایکوئزیشن کلکٹر وسیم تابش نے متاثرین سے بات کرنے، متاثرین کی بات سننے کی بجائے خود ہی فیصلہ صادر کرتے ہوئے اعتراضات مکمل طور پر مسترد کر دیے۔ لینڈز ایکوئزیشن کلکٹر وسیم تابش کا یہ رویہ غیر آئینی و قانونی ہے۔ جس سے بات ثابت ہوتی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ہے بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔

موضع ڈپئی میں 600 کنال اراضی پر مالکان سے پوچھے بغیر سروسز ایریا قرار دے دی گئی اور ہمراہ پولیس انتظامیہ کے اہلکار نشاندہی کرنے کے لئے پہنچ گئے تھے۔ مالکان سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں بے گھر کیوں کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں ریڈیو سٹیشن، گرڈ سٹیشن، پولیس کانسٹیبلری اور کچرا کنڈی کے لئے بھی کسان زمینیں دے چکے ہیں اور معاوضہ جات آج تک ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ اگر دیے بھی تو چند سو روپے دے کر ٹرخا دیا گیا ہے۔

ماضی کے برعکس موجودہ حکومت فسطائیت پر اتر آئی ہے۔ رنگ روڈ منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کمشنر ہیں۔ جوعوام کے ساتھ مشاورت کی بجائے دھونس چلا رہے ہیں۔ متاثرین بار بار خود ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نچلے درجے کے اہلکار متاثرین سے اللے تللے کر کے واپس بھیج دیتے ہیں۔ ڈی سی یا کمشنر ملتے ہیں تو فاتحانہ رعونت سے متاثرین کوچلتا کر دیا جاتا ہے کہ آپ جائیں، دیکھیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ انگریز بہادر کی انتظامیہ ہے اورعوام رعایا ہیں۔

انتظامیہ کا تاج برطانیہ والا رویہ اور سلوک سے مایوس ہو کر رنگ روڈ کوارڈنیشن کمیٹی کے چیئرمین راجہ اعجاز اور جملہ اراکین نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ رنگ روڈ کے لئے تو زمینیں دے چکے ہیں۔ مگر سروسز ایریاز کے نام پر کسی صورت ڈاکہ نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔

چک بیلی روڈ، روات کی جانب کمیٹی کے سرکردہ رہنما سید فیاض حسین گیلانی نے متاثرین احتجاجی کیمپ لگا کر مورچہ سنبھال رکھا ہے۔ فیاض گیلانی کے ڈی سی اور کمشنر سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں۔ آخر کار فیاض گیلانی مورچہ نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ رنگ روڈ نامنظور اور جی ٹی روڈ بلاک کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ فتح جنگ کی طرف اعوان آباد میں ملک تبریز اور ساتھیوں نے محاذ بنا لیا ہے۔

انتظامیہ کی دھونس کے باعث متاثرہ کسانوں میں غم وغصہ پیدا ہو رہا ہے۔ کسان بھرپور احتجاج اور کمشنر آفس کے باہر دھرنے پر بھی آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ انتظامیہ نے اپنی روش نہ بدلی اور عوام سے براہ راست مشاورتی عمل شروع نہ کیا تو رنگ روڈ کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ انتظامیہ کے لئے یہی سود مند ہے کہ کسانوں سے دھونس کی بجائے مشاورت کو ترجیح دیں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔