کیا گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب ارکان سے پالیسیاں بنانے کا اختیار چھین لیا گیا؟

کیا گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب ارکان سے پالیسیاں بنانے کا اختیار چھین لیا گیا؟
عالمی مالیاتی ادارے پالیساں بنائیں گے اور ہمارے منتخب نمائندے ان پر صرف دستخط کریں گے۔ ‏وزیر امور نوجوانان کے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان یوتھ پالیسی عالمی مالیاتی ادارے کیوں بنا رہے ہیں؟ قانون سازی بھی عالمی مالیاتی ادارے این جی آوز کی سفارشات سے کر رہے ہیں تو یہ وزرا کیا کر رہے ہیں؟

‏اگر سب کچھ عالمی مالیاتی ادارے اور این جی آوز نے کرنا ہے تو وزرا، مشیران اور کوآرڈینیٹرز کے نام پر قومی خزانے کو کیوں چونا لگا رہے ہیں؟ اس ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنا باقی رہ گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کی حکومت قانون سازی بھی عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر کرنے میں مصروف ہے۔

روندو سے منتخب راجہ ناصر علی خان کیا اس قابل نہیں ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لئے پالیسی مرتب کریں؟ اگر وہ اس قابل نہیں ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ فوراً ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ، اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈووکیٹ کو نوجوانوں کے لئے پالیسی مرتب کرنے کو کہے۔ دونوں قابل اور قانون سازی سے واقف ہیں۔

اگر گلگت بلتستان حکومت نوجوانوں کے لئے پالیسی مرتب کرنے اور اس کو قانون کا درجہ دینے کے لئے نذیر احمد ایڈووکیٹ اور امجد حسین ایڈووکیٹ کو ذمہ داری دیتی ہے تو ہم اس پالیسی کا خیر مقدم کریں گے اور اپنی سفارشات ان تک پہنچائیں گے۔ اگر حکومت اس کے باوجود بھی عالمی مالیاتی ادارے سے ہی اس پالیسی کو مرتب کروانے پر بضد ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ پالیسیاں مرتب کرنے کا کام بھی اسلام آباد سرکار نے ان سے چھین لیا ہے۔ اس اسمبلی کا کام صرف بےروزگار سفارشی افراد کو کنٹیجنٹ، پروجیکٹ اور کنٹریکٹ کے نام پر مستقل کرنا رہ گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ کام بھی عالمی مالیاتی اداروں اور این جی آوز کے حوالے نہ کر دیا جائے۔

گلگت بلتستان حکومت کے اشتراک سے یو این ڈی پی نے گلگت کے مہنگے ترین ہوٹل میں یوتھ پالیسی کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔

نوجوانوں کے لئے پالیسی مرتب کرتے ہوئے صرف این جی آوز کے افراد کو مدعو کیا گیا تھا جو کہ اس حکومت کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا نوجوان صرف این جی آوز میں موجود ہیں؟ کیا گلگت بلتستان کی مختلف طلبہ تنظیموں کے نوجوان اس ورکشاپ میں شریک ہونے کے قابل نہیں؟

کیا حکومت نے پالیسی سازی کی ورکشاپ میں گلگت بلتستان اسمبلی میں موجودہ سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کو مدعو کیا؟

یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس حکومت میں پالیسی وہی لوگ بناتے ہیں جو خود سیاسی عمل سے نہیں گزرے۔ سلیکٹرز کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے کبھی بھی سیاسی اور پالیسی سازی کے عمل میں نوجوانوں کو شریک نہیں کریں گے۔

کوآرڈینیٹرز اور مشیران کے نام پر سیاسی بےروزگاروں کو نوازا گیا۔ سیاسی بےروزگاروں کو کوآرڈینیٹر اور مشیر لگانے کے بجائے اپنی جماعت سے ہی یوتھ اور طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں کو آگے لاتے تو آج کم از کم نوجوانوں کے لئے پالیسی مرتب کرتے ہوئے نوجوانوں کو اس ورکشاپ میں مدعو کرتے۔

این جی آوز کے نمائندوں کے ذریعے نوجوانوں کے لئے پالیسی بنانے کے عمل کو ہم مسترد کرتے ہیں اور ہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نوجوانوں کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنے سے پہلے گلگت بلتستان کی مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کو یا کم از کم گلگت بلتستان اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں اور یوتھ کے نمائندوں کو اس عمل میں شریک کریں ورنہ ہم اس این جی آوز زدہ پالیسی کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔

مصنف سے ٹوئٹر پر @InayatRAbdali رابطہ کیا جاسکتا ہے۔