'کابل چھوڑتے وقت ماں کے آنسو میرےلئے کسی قیامت سےکم نہیں تھے'

'کابل چھوڑتے وقت ماں کے آنسو میرےلئے کسی قیامت سےکم نہیں تھے'
بلقیس سروری کا تعلق افغانستان کے تاجک قبیلے سے ہے۔ اُن کی ماں پشتون جبکہ والد کا تعلق تاجک قبیلے سے ہے۔ بلقیس سروری 1998 میں افغانستان میں اس وقت پیدا ہوئی جب طالبان کی حکومت کے چرچے تھے۔ انھوں نے بنیادی تعلیم افغانستان میں حاصل کی اور پھر سال 2018 میں انھوں نے کابل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ بلقیس سروری کے لئے یونیورسٹی جانا ایک خواب تھا کیونکہ افغانستان کے امن و امان اور جنگ و جدل کے ماحول میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا ملک کی ہزاروں لڑکیوں کے لئے ایک خواب کے مانند ہے۔ بلقیس کے والد تعلیم یافتہ اور اسودہ حال تھے اس لئے ان کا یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب پورا ہوا۔

بلقیس کو یونیورسٹی میں داخلہ ملنے کے بعدزندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا اور نہ صرف ان کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی ملی بلکہ کابل یونیورسٹی میں اُن کے نئے دوست بھی بنے جن کے ساتھ وہ خوش اور پُرسکون تھیں۔ وقت کا پہیہ گھومتا گیا اور بلقیس یونیورسٹی کے تیسرے سال میں داخل ہوئی۔ بلقیس یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد افغانستان کے وقار اور خدمت کے لئے خود کو وقف کرنا چاہتی تھی مگر شائد قسمت کو یہ منظور نہیں تھا۔ افغانستان میں حالات خراب ہونےکے دوران وہ یونیورسٹی کے ساتویں سمسٹر میں پہنچ چکی تھی اور انھوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر یونیورسٹی کے پراجیکٹ پر کام شروع کیا تھا لیکن تب تک افغانستان سمیت پورے کابل پر خوف کے سائے منڈلا چکے تھے اور لوگ کابل سے نکلنے کی تیاری پکڑ رہےتھے مگر بلقیس روزانہ کی بنیاد پر خبریں دیکھتی تھی اور ان کو یقین تھا کہ طالبان کابل پر قابض نہیں ہوسکتے کیونکہ اُن کو اپنی حکومت اور فوج پر اندھا اعتماد تھا لیکن وہ کہتی ہے کہ یہ میری ہم خیالی تھی جس میں دور دور تک کوئی حقیقت نہیں تھی۔

بلقیس کچھ روز پہلے افغانستان کے چمن بارڈر کے راستے سے اپنے والد اور بہن سمیت پاکستان میں داخل ہوئی اور اس وقت وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں عارضی طور پر رہائش پزیر ہے اور قانونی عمل مکمل ہونے کے بعد وہ ترکی منتقل ہوگی جہاں سے دیگر یورپی ممالک جانے کے لئے منصوبہ بندی کریگی۔

بلقیس کہتی ہے کہ جیسے جیسے کابل پر قبضے کی خبریں آرہی تھیں میرا دل بیٹھا جارہا تھا اور ہمیں انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو یا تو ختم کردو اگر نہیں کرسکتے تو پھر ان سے اپنی تصویریں اور دیگر شناختی مواد ہٹا لو اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ بلقیس کہتی ہے ہم کابل میں کئی راتیں اپنے گھروں میں قید رہے اور کئی راتوں تک نہیں سوئے کیونکہ ہلکی سی آہٹ سے ہمیں لگتا تھا کہ اب کوئی ہمارے گھر آکر ہمیں قتل کردیگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ایک ایک رات ایک ایک صدی کی طرح گزری اور ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کہاں جائیں؟ میرے والدین جو میرے ساتھ تھے وہی میرا سہارا تھے لیکن کابل میں ہلاکتوں کی خبریں سنتے تھے تو خوف میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا اور آخر میں سکون اور نیند کی دوائیاں لینی شروع کی۔

بلقیس کہتی ہے کہ جب حالات نارمل ہونا شروع ہوئے توہم تھوڑا سکون میں ہوئے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان جائینگے اور پاکستان سے پھر کسی دوسرے ملک کا رُخ کرینگے لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا جبکہ پاکستان کا ویزہ لینا اتنا اسان کام نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ سفارت خانے تک رسائی حاصل کرنا ایک کھٹن مرحلہ تھا لیکن وہاں ایجنٹ ہوتے تھے اور وہ پاکستانی ویزے کے لئے 200 سے لیکر 300 ڈالرز لیتے تھے لیکن لوگ چونکہ مشکل میں تھے اور جان بچانی تھی اس لئے لوگ گردے بیچنے کے لئے بھی تیار تھے مگر کابل سے نکلنا اُن کی اولین ترجیح تھی۔

بلقیس کہتی ہیں کہ بہت سارے لوگوں نےایجنٹوں کو ڈالر میں رقم لیکر ویزے لئے لیکن سینکڑوں لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوا اور ایجنٹوں نے جعلی ویزے لگائے اور یہ پتہ تب چلا جب لوگ اذیت اور تکلیف سے گزر کر پاکستانی بارڈرز پر پہنچ گئے اور بارڈر پر کئی راتیں گزارنے کے بعد جب امیگریشن کاونٹرز پر ان کی باری آئی تو اُن کو بتایا گیا کہ آپ لوگوں کے ویزے جعلی ہیں جس سے لوگ نفسیاتی اور مالی طور پر برباد ہوئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان انٹرنیشنل آئیرلائن کے توسط سے ویزے لئے مگر پی آئی اے نے فوراً بعد اپنا فضائی اپریشن معطل کردیا اور ہمارے پاس طورخم جانے کا ایک ہی راستہ تھا۔

بلقیس کی آنکھوں میں آنسو نمودار ہوئے اور انھوں نے اپنا سر زمین کی طرف کیا اور روتے ہوئے کہا کہ زندگی میں ایسا درد کبھی نہ دیکھا بس یہ درد میں نہیں بھول سکتی جب ہم تینوں بہنیں گھر سے بارڈر کے لئے نکل رہے تھے اور میری امی بار بار ہمارے ہاتھ اور ماتھے چھوم رہی تھیں اور سسکیاں لے لے کر رورہی تھی اور دعائیں دیں رہی تھی کہ اللہ کابل کو پھر سے آباد کریں تاکہ میں اپنے بچوں کو دیکھ سکوں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میری امی کابل نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں اور یہی کہہ رہی تھیں کہ میں نے زندگی میں جنگ اور تباہی دیکھی ہے اور میں افغانستان کی سرزمین پر سکون سے دفن ہونا چاہتی ہو۔ بلقیس کہتی ہیں کہ ہم پاکستان پہنچ گئے مگر ہزاوں خواب اور خواہشات کابل میں چھوڑ کر آگئے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا آگے کا مستقبل کیا ہوگا اور کیا ہمیں دوبارہ سے پرامن افغانستان کو دیکھنا نصیب ہوجائے گا اور کیا ہم واپس کابل جا پائینگے یہی وہ تشویش ہے جو ہمیں اندر سے ختم کررہی ہے اور شائد ہمارے نصیب میں دربدر ہونا لکھا ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔