ہمسایہ ممالک کیساتھ کشیدہ تعلقات ملکی ترقی میں رکاوٹ

ہمسایہ ممالک کیساتھ کشیدہ تعلقات ملکی ترقی میں رکاوٹ
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمسایہ ممالک کیساتھ تنازعات ملکی امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ جب تک علاقے میں امن نہیں ہوگا، ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ چین کے سوائے ہمارے تمام پڑوسی ممالک کیساتھ ہماری کسی نہ کسی مسئلے پر ٹینشن چل رہی ہے۔ موجودہ دور میں دیکھا جائے جب دنیا کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں خاص کر امریکہ کا افغانستان سے انخلا ایک نیا باب کھول گیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے برق رفتاری سے قبضے نے دنیا بھر کے سکیورٹی اور سفارت کاری کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ سقوط کابل کے فوراً بعد ہی مختلف ممالک افغانستان میں اپنی دو دہائیوں کی سرمایہ کاری اور ترقیاتی کاموں کو بھول بھال کر اپنے اپنے سفارتکاروں اور شہریوں کو جلد از جلد یہاں سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔

طالبان کی افغانستان میں یہ کامیابی ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں نمایاں تبدیلی کا پیش خیمہ بن گئی ہے اور یہ خاص طور پر انڈیا کے لیے آزمائش کا باعث ہے جس کے تاریخی طور پر اپنے ہمسایوں پاکستان اور چین کے ساتھ ناصرف کشیدہ تعلقات ہیں بلکہ سرحدی تنازعات بھی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان اور چین کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں ممالک کے مستقبل میں افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع ہے۔

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ ایک طویل مگر غیر محفوظ سرحد ہے اور طویل عرصے سے پاکستان افغانستان کے معاملات میں ایک فعال کھلاڑی رہا ہے۔ اب چین افغانستان میں بڑا کردار ادا کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔

گذشتہ ماہ چین کے وزیر خارجہ کی سینئر طالبان رہنماؤں سے ہونے والی ملاقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ اب اس معاملے میں خاموش کھلاڑی نہیں رہنا چاہتا۔ افغانستان اور شام میں خدمات سرانجام دینے والے انڈیا کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیا کہتے ہیں کہ یہ ممکنہ جغرافیائی تبدیلیاں 'معاملات کو الٹ کر رکھ سکتی ہیں۔' افغانستان میں کابل کی جمہوری حکومت، مغرب طاقتوں اور انڈیا جیسی دوسری جمہوریتوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد تھا لیکن ممکن ہے کہ دنیا اب اس کھیل کے اگلے مرحلے میں پاکستان، روس، ایران اور چین کو اکھٹا ہوتے اور اپنا کردار ادا کرتے دیکھے۔

پاکستان واقعی خود کو اس وقت سب سے بڑے علاقائی فاتح کے طور پر سمجھ رہا ہے۔ مگر وہ اس جنگ میں اور اس سرحدی تنازعات میں اپنے عوام کو ترقی سے دور کر چکا ہے۔ یہاں ملک میں مہنگائی ہے۔ افراتفری ہے اور ایک بے یقینی کی فضا ہے جس میں بنیادی مسئلہ ان تنازعات میں خود کو ڈالنا تھا۔

اگر ہم شروع دن سے کوئی اچھی سی پالیسی بنا لیتے تو آج ملک ترقی کے معراج پر ہوتا۔ آج جس طرح باقی ممالک نے فارن پالیسی پر توجہ دی ہے، اگر ہماری پالیسیاں بھی اسی نہج پر ہوتیں تو آج ہم اپنے حکمرانوں کو گالیاں نہ دیتے ہم اس ملک سے باہر جانے کا نہیں سوچتے کیونکہ اس وطن عزیز میں سب کچھ ہے۔ کمی ہے تو ایک اعلیٰ لیڈرشپ کی جو ہماری قوم کو ٹھیک راہ چلانے کے لئے کوشش کرے اب بھی وقت نہیں گزرا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ہو گئے اور علاقائی تنازعات کا خاتمہ ہوگیا تو وہ دن دور نہیں جب س جنت نظیر کی سیر کے لئے لوگ دور دور سے آئیں گے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔