انسان کا اپنے رب سے ان دیکھا تعلق

انسان کا اپنے رب سے ان دیکھا تعلق
یہ ان دیکھا کیا ہے؟ جو آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے، جو آنکھ نے دیکھا ہی نہیں؟ جیسے چھو نہیں سکتے، بس محسوس کر سکتے ہیں؟ ہاں وہ سب جیسا ہمارا عقیدہ ہے اپنے رب پر، وہ سب جو اُس اعتقاد جیسا ہے۔

اس رشتے جیسا ہے جو انسان اور اس کے بنانے والے کے درمیان ہے۔ دیکھے بغیر یقین، وہ سب اَن دیکھا ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد ایک وقت مقرر ہے ہر انسان کا جب اس نے واپس جانا ہے۔ آتے اِس عقیدے کے ساتھ ہیں پر جائیں گے اس جیسی بہت سی ایسی اَن دیکھی خصوصیات کے ساتھ جو اس اعتقاد جیسی ہیں۔

جسم تو یہاں رہ جائے گا پھر جائے گا تو وہی جو روح لےکر جائے گی۔ پر ہم ساری زندگی تو اس میں لگا دیتے ہیں جو اس دنیا کے لیے ہوتا ہے۔ منصوبے بھی اس دنیا کو سنوارنے کے لیے بناتے ہیں۔ کاروبار بہتر کر لیں، گھر بنا لیں، اولاد کے لیے جمع کریں تاکہ ہمارے بعد تنگی نہ ہو، کوئی کتنی بھی کوشش کر لے، کیا کچھ لے کر جا سکتا ہے؟

ہمارے ساتھ تو یہ جسم بھی نہیں جاتا جو خوبصورت نظر آئے، اسی میں ساری عمر لگا دیتے ہیں۔ تو کیا جو کر رہے وہ ٹھیک ہے؟ جس پر وقت لگا رہے ہیں واقعتاً سہی لگا رہے ہیں؟ کیا ان سب کی وہ اہمیت بھی ہے جتنی ہم دے رہے ہیں؟

سب ایک سروور میں ہیں، بنانے والے بھی اور دیکھنے والے بھی، جو داد دیتے ہیں اور داد وصول کرنے والوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے، وہ اور محنت کرتے ہیں اور کرتے جاتے ہیں۔

تو اجر تو ملنا ہی ہوتا ہے محنت کا، جو جس مدار میں گھوم رہا ہے بس گھومتا چلا جا رہا ہے اور مداد بڑھتے جا رہے ہیں۔ مرکز بدلنے کے لیے رکنا ہو گا، جاننا ہوگا کہ مرکز بدلنے کیلئے کرنا کیا ہے؟ محور بدلنا کیا اتنا ضروری ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں یہ سوال خود سے کرنا ہو گا۔ ورنہ یہ چلتا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ تب تک جب تک اَن دیکھے کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو جائے۔

کیا ہے یہ اَن دیکھا؟ وہ کہ جب ہماری روح واپس اس دنیا سے جائے تو اپنے بنانے والے کہ سامنے شرمندگی نہ ہو، سرخرو ہو جائیں۔ بنانے والے کا بنانے کا مقصد پورا ہو جائے۔ یہ زندگی جو نعمت ہے، جواباً کیا دے سکتے ہیں ہم لیکن کم از کم اتنا کہ وہ مان قائم رہے جو ہمارے رب کو سب مخلوقات سے زیادہ ہم انسانوں پر ہے، تبھی تو ہم اشرف المخلوقات ہیں۔

وہ مخلوق جو سب سےافضل ہے۔ مطلب کہ اتنی صلاحیت ہے تو یہ اعزاز حاصل ہے ناں، ہم تو شاید اس کے الف کو بھی نہ سمجھ پائیں پھر بھی جب بنانے والے نے دیا ہے تو وہ سب جانتا ہے کہ ہم جان سکتے ہیں تو کمی کس بات کی ہے؟ جو مرکز ہی بدل لیا ؟ جو اہمیت اِس دنیا کی جانتے ہیں ذرا اُس دنیا کی بھی جان لیں تو مرکز بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

فائدہ ہی دیکھنا ہے ناں تو ابدی کیوں نہیں؟ اکٹھا ہی کر رہے تو وہ سامان کیوں نہیں جسے لے کر جانا بھی ممکن ہو۔ جسے رب کو دکھانا بھی ممکن ہو کہ یہ کرکے آئیں ہیں۔ آزمائشی دنیا سے اس روڈ میں شامل ہونے کا کیا فائدہ جس میں سبھی شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر منزل کوئی نہیں۔ ایک دوسرے کو دیھانے کے لیے تو بہت کچھ کرتے ہیں۔ کیا اُسے دکھانے کے لیے بھی کچھ کرتے ہیں؟ جو مالک ہے اِس دنیا کا، ہماری زندگیوں کا پورے جہان کا، سب کا۔

مصنفہ سے thenairamalik@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔