اگر تحقیق نہیں کرسکتے تو ملک کو بدنام کیوں کرتے ہو

اگر تحقیق نہیں کرسکتے تو ملک کو بدنام کیوں کرتے ہو
کچھ عرصہ پہلے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے ایک رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیاں دنیا بھر کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی ہیں جس میں قائداعظم یونیورسٹی جو پہلے اس دوڑ میں شامل ہوا کرتی تھی، اس کے ساتھ خیبر پختونخوا کی کچھ یونیورسٹیاں بھی اس میدان میں شامل ہو گئیں۔

کہا گیا کہ ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے تحقیق میں اعلیٰ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور یہ ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہو چکی ہیں جس کے بعد ان یونیورسٹیوں نے اخبارات میں اشتہارات تک چپھوا دیئے کہ ہماری رینکنگ بہترین ہو گئی ہے۔

ایک یونیورسٹی کے اساتذہ نے تو اپنے وزٹنگ کارڈ پر یہ لکھ دیا کہ ٹاپ رینکنگ یونیورسٹی ان ایشیا اور شہر میں جا بجا پوسٹر بھی اآویزاں کر دیئے جبکہ یونیورسٹی کے اندر پروگرام اور بڑے بڑے بینرز اس کے علاوہ ہیں۔

ہم بھی خوش ہوئے کہ کافی اچھا کام ہو گیا ہے۔ اب ہم بھی بین الاقوامی رینکنگ میں آ گئے ہیں، اس سے پہلے اخبارات میں کچھ اس قسم کی دوسری خبر بھی شائع ہو گئی تھی کہ فلاں یونیورسٹی کا فیکلٹی ممبر سائنسدانوں، تحقیق دانوں کی بین الاقوامی لسٹ میں نمایاں نام پیدا کر گیا ہے اور یہ کوئی ایک یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ بہت سی یونیورسٹیوں کے اساتذہ بہترین محقق گرادانے گئے تھے۔ پھر خبر چھپی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

اب کچھ روز سے ایک اور خبر چل رہی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ یونیورسٹی کے پروفیسرز سرقہ نویسی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جو قائداعظم یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سرقہ نویسی میں شعبہ ریاضی کے اساتذہ شامل ہیں بلکہ انہوں نے تو حد کی ہے۔

مجموعی طور پر 251 تحقیقی مقالوں میں غلط معلومات اور سرقہ نویسی کی گئی ہے اور ان تحقیقی مقالوں میں 30 تحقیقی مقالے قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسرز نے شائع کئے، اس سے 14000 ہزار طلبہ اور ایک ہزار سے زائد فیکلٹی اور ملازمین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ملک کی بدنامی بھی ہوئی۔

یہ رپورٹ نیویارک کے ایک ادارے سینٹر فار ریسرچ انٹیگریٹی نے شائع کی ہے جس میں 239 تحقیقی مقالے ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے پروفیسر نے لکھے ہیں جن کی تعداد 900 بنتی ہے۔ نسٹ، کامسیٹ، آغا خان، اآئی بی اے، کراچی یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی جس میں زیادہ تر مرد فیکلٹی ممبران شامل ہیں جنہوں نے صرف اپنے نام آنے کے لئے تحقیقی مقالوں میں انٹری کی ہے۔ ہری پور یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر خالد زمان کے سولہ تحقیقی مقالے سرقہ ہیں۔

انسانی فطرت ازل سے ابد تک ایک ہی رہے گی۔ انسان جہاں اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے تخلیقی کاموں میں پیش پیش ہے، وہیں تخریبی کاموں میں بھی پیچھے نہیں اور اسی تخریب کاری کی ایک مثال ہم سرقہ نویسی بھی کہہ سکتے ہیں جس کو میں تعلیمی دہشت گردی سے مشابہ کہتا ہوں کہ یہ لوگ خیالات پر ڈاکا ڈالتے ہیں جو کسی بھی طور ٹھیک نہیں ہے۔

ایسے اساتذہ جو سرقہ نویسی جیسی گھٹیا حرکتوں میں ملوث ہیں اور انٹرویو وغیرہ میں بیٹھ کر نئی نسل سے اوٹ پٹانگ سوالات کرتے ہیں جہاں ان کی خود کی کریڈیبیلٹی ٹھیک نہیں ہے۔

اگر میں یہاں یہ لکھوں تو غلط نہیں ہوگا کہ 2000ء سے پہلے جن لوگوں نے بھی پی ایچ ڈیز کیں وہ سارے سرقہ نویس ہیں تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پہلے سرقہ نویسی کا کوئی نظریہ ہی نہیں تھا۔ یہ تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد شروع ہوا جب سرقہ نویسی کی پالیسی بنائی گئی اور اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ملک کے بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز تک سرقہ نویسی میں شامل رہے۔

یہ صرف ایک صوبے تک نہیں بلکہ خیبر سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے بڑے بڑے نام اس میں شامل ہیں۔ یعنی کہ اس حمام میں بہت سے پروفیسرز ننگے ہیں، جو تحقیق نہیں کر سکتے صرف نام چھپوانے کے لئے ملک کو بدنام کرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔