• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, مارچ 20, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کراچی میں رہائش اور زمین کی سیاست

محمد توحید by محمد توحید
دسمبر 7, 2021
in عوام کی آواز
20 0
0
کراچی میں رہائش اور زمین کی سیاست
23
SHARES
111
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

اگرچہ پاکستان کے آئین کے تحت ریاست کا فرض اور ذمہ دا ری ہے کہ شہریوں کو ترجیحی بنیاددوں پر حقوق فراہم کئے جائیں مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 جو ” لوگوں کی معاشرتی اور معاشی بہبود کو فروغ دینے ” سے متعلق ہے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے کہ جنس، ذات، رنگ یا نسل سے قطع نظر ان تمام شہریوں کے لئے جو کسی عارضہ، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے مستقل یا عارضی طور پر اپنا روزگار کمانے سے قاصر ہیں۔

RelatedPosts

کم سن بچوں کے اغوا کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

شیخ رشید کے خلاف کراچی اور حب میں درج مقدمات پر کارروائی سے روک دیا گیا

Load More

بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، جیسے کھانا، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 38 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘عوام کو رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان کے شہریوں کی اکثریت کے لئے رہائش تک رسائی کا حق عملی طور پر انتظار کے تجربے سے جُڑا ہوا ہے۔

اس طویل المیعاد انتظار کی کیفیت اور اس کی جزیات کو سمجھنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ شہری کیسے اور کہاں انتظار کرتے ہیں اور ان کے انتظار کے عمل میں ریاست کے ساتھ ان کے مزاحمتی مقابلوں پر روشنی ڈالنے سے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے مستقبل کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔

موجودہ صورتحال میں جب کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں زمین کی قلت اور رہائش کے بحران کے ساتھ  پسماندہ طبقے کے لئے گھروں کا انتظار پناہ تلاش کرنے کی سیاست کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ طویل مدت تک غیر یقینی صورتحال مختلف خدشات کو جنم دیتی ہے۔ غیر رسمی اور غیر قانونی رہائش سے قانونی ورسمی رہائش کا سفر مزید دشوار ہو جاتا ہے۔

ایسے حالات میں پالیسی کے نقطہ نظر کی تبدیلی، حکمت عملی، حکمرانی کے مستقل اور اکثر اوقات مبہم طریقوں سے جُڑا ہُوا انتظار شہریوں اور ریاست کے مابین مخالفت، بغاوت اور تصادم کی فضا پیدا کرتا ہے۔

مجموعی طور پر پاکستان کے شہروں میں رہائش کے منتظر افراد کو کہیں کسی بھی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں بنایا جاتا بلکہ انہیں قانونی وغیر قانونی کی درمیانی کیفیت میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس دوران اور طویل مدتی انتظار میں زندگی بسر کرنے کے لئے جہد مسلسل کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ متحرک ہونے کے ساتھ وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کرنا ہے، ورنہ اکثر ریاست ایسے شہریوں کو غیر قانونی اور قابضین قرار دے کر مستقبل کے منصوبوں میں ان کی شرکت اور جائز رہائش کے حق کو ختم کر دیتی ہے۔ جبکہ غیر یقینی صورتحال اور انتظار کی کیفیت بہت سے نفسیاتی عوارض کو جنم دیتی ہے کیونکہ انسان مستقل الجھنوں اور غلط فہمیوں میں گھرا رہتا ہے۔

شہر کراچی میں ریاست کی جانب سے فراہم کردہ مکانات کا انتظار کرنا معمول کی بات ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں، لوگ انتظار اور امید کرتے رہتے ہیں۔ اس میں دو طرح کے طبقات ہیں ایک وہ کہ جنھوں نے اپنی آدھی زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی اور کسی سرکاری رہائشی اسکیم میں پلاٹ خریدا کہ وہاں گھر بنا کر اپنے گھر میں منتقل ہو جائیں گے مگر ایک دہائی گزر جانے کے باوجود ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ شہر کراچی میں اس کی مثالیں تیئسر ٹاؤن اور ہاکس بے اسکیم 42 ہیں۔

اسی طرح ماضی قریب میں 50 لاکھ گھر بنانے کے وعدے پر مشتمل نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم سے بھی لاکھوں لوگوں نے یہ توقع وابستہ کی کہ شاید اس طرح ان کا برسوں کا انتظار اختتام پذیر ہو اور وہ اپنے گھر کے مالک بن جائیں مگر ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی ٹھوس پیشرفت سامنے نہیں آسکی بلکہ اس کے لئے قائم نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اب تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔

یہ ہاؤسنگ اسکیم جسے غریب دوست اقدام کا نام دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اپنے گھر کا خواب حقیقت میں تبدیل کرنا اب اس کے ذریعے ممکن ہوگا لیکن اسی غریب اور کمزور طبقے کو کہا گیا کہ آپ نے گھر کی کل قیمت لاکھوں میں ادا کرنی ہے اور پہلی ادائیگی کم وبیش 6 لاکھ سے زائد ہوگی تو سوال یہ ہے کہ دیہاڑی دار، سبزی فروش، کنٹریکٹ پر کام کرنے والا لاکھوں روپے کہاں سے لائے گا تاکہ وہ گھرحاصل کر سکے یعنی پیشگی رقم لاکھوں روپے رکھ کر اس غریب اور کمزور طبقے کو تو آپ نے علیحدہ کردیا۔

ظاہری طور پر یہ اسکیم غریب اور کمزور طبقے کو سہولت فراہم کرتی ہے اور ایسی صورتحال میں اس اسکیم میں رجسٹریشن اور پھر ریاست کے ذریعہ فنڈڈ اور بنائے گئے مکان کا فائدہ اٹھانے کا انتظار کرنا منطق سے بالاتر ہے۔ مجموعی تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ریاست کم آمدنی والے مکانوں کی بڑے پیمانے پر تشکیل دے رہی ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو شہروں میں غیر رسمی بستیوں میں رہائش پذیر تھا اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور ساتھ ہی ان سے یہ وعدہ کیا گیا کہ ریاست انہیں بہتر متبادل فراہم کرے گی مگر سالہا سال گزر جانے کے باوجود بھی انہیں متبادل رہائش کی فراہمی کے حوالے سے عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔

ایسی صورتحال ہمیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نظر آتی ہے جبری طور پر بے دخل کئے گئے گھرانوں کو بغیر کسی معاوضے یا متبادل کے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔

گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کراچی میں جبری  بے دخل کیے گئے بمشکل 33 فیصد گھرانوں کو کسی بھی قسم کی آبادکاری کی جگہ، نقد معاوضہ، یا اپنی معاش کی تعمیر نو کے لیے مدد ملی ہے جبکہ باقی 67 فیصد کو انتظار کی کیفیت میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

لیاری ایکسپریس وے منصوبے میں کم وبیش 77 ہزار گھرانے بے گھر ہوئے جبکہ ان میں سے نصف کو ہی متبادل رہائش میسر ہو سکی- آج بھی حسن اولیا ویلیج میں کئی خاندان پچھلے پانچ سالوں سے انتظار کی مستقل حالت میں ہیں کہ ریاست اپنے وعدے کے مطابق انہیں متبادل رہائش فراہم کرے گی۔ اسی طرح 2019ء کے اوائل میں مسمار کی گئی کراچی سرکلر ریلوے سے ملحقہ آبادیوں سے جبری طور پر بے دخل کئے گئے 1100 سے زائد خاندان سپریم کورٹ کے حکم اور وعدے کے مطابق متبادل رہائش کے منتظر ہیں مگر ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔

یہ سلسلہ ابھی جاری وساری ہے کیونکہ 2020ء میں ہونے والی بارشوں میں شہر کے بیشتر حصے زیر آب آنے سے حکومتی اداروں نے برساتی نالوں کو چوڑا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بار پھر شہر کے غریب اور کمزور طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔ شہر کے تین بڑے نالوں محمود آباد نالہ، اورنگی نالہ اور گجر نالے کے اطراف میں رہائش پذیر آبادیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ان آبادیوں کے مکینوں کی جبری بے دخلی کا کام شروع کردیا اور انتہائی تیز رفتاری سے ہزاروں خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا۔

یہاں بھی حکومتی وعدہ یہی تھا کہ ہر خاندان کو متبادل رہائش فراہم کی جائیگی۔ اس کی مختلف اشکال سامنے آتی رہیں اور پہلے مرحلے میں متاثرین کو کہا گیا کہ وہ 2 سال تک کرائے کی رہائش اختیار کریں اور انہیں 15 ہزار فی ماہ کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم 6 ماہ کا کرایہ یعنی 90 ہزار کے چار چیکس کی صورت میں ہوگا مگر برا ہو ان سروے کرنے والوں کا جنہوں نے گھرانوں کو ٹھیک نہیں گنا اور نصف سے زائد خاندانوں کو شامل ہی نہیں کیا بلکہ جنہیں شامل کیا ان کے کوائف کے اندراج میں مختلف طرح کی غلطیاں کیں جس سے متاثرین کو آج تک وہ رقم حاصل نہ ہو سکی تو متبادل رہائش کے ملنے کا تو تصور ہی محال ہے۔

یوں ایک جانب وہ لوگ ہیں جن کے ناموں کا ٹھیک اندراج ہے وہ بھی ریاست کے منتظر ہیں اور دوسری جانب وہ کہ جنہیں شامل ہی نہیں کیا گیا مگر ان کے سر سے چھت چھین لی گئی وہ بھی اس امید میں ہیں کہ شاید ان کا نام شامل کرلیا جائے-

نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال لوگوں کو طویل عرصے تک زمین، رہائش اور ذریعہ معاش کے حوالے سے خطرناک حالات میں گزارے پر مجبور کرتی ہے۔

لہٰذا لوگوں کو معاوضے کے لیے معاش اور گھروں میں استحکام کے لیے جگہ سازی میں سماجی تحفظ اور تحفظ کے احساس کے لیے ‘انتظار’ کی مستقل حالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ ناگفتہ بہ حالت ریاست کے بارے میں مایوسی اور بد اعتمادی کے جذبات کو جنم دیتی ہے لیکن یہ متضاد طور پر متاثرہ باشندوں کو ریاست سے انحصار کے غیر متناسب رشتے میں جوڑتا ہے۔

بہرحال شہریوں کی اکثریت کے لئے رہائش تک رسائی کا یہ حق عملی طور پر انتظار کے تجربے سے جڑا نظر آتا ہے۔ رہائشی مکانات کے منتظر رہنا نہ صرف اس دوران پناہ تلاش کرنے کی سیاست بلکہ شہری اور ریاست کے مابین تصادم کی ایک متنازعہ سیاست کا بھی مقابلہ کرتا ہے۔

رہائش کا انتظار کرنے والی سیاست ناصرف ان سیاق وسباق میں پھیلی ہوئی ہے جس میں لوگ انتظار کے دوران رہتے ہیں بلکہ ریاست کے ساتھ مقابلوں میں متبادل رہائش  سے متعلق پالیسیوں اور طریق کار کو تبدیل کروانے میں کوشاں اس بات کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ شہادت اور حقوق کا دعویٰ ایک طویل عرصے بعد کس طرح ایک مجسم شکل اختیار کرتا ہے۔

 

Tags: HousingKarachiland politicsسیاستکراچیلینڈ مافیانیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی
Previous Post

میں مغل بادشاہ نہیں، اگر مطمئن نہیں کرسکا تو گھر چلا جاؤنگا: چیئرمین نیب

Next Post

اسٹال لگانے کے پیسے نہ دینے کی سزا، بااثر افراد نے خاتون کو آگ لگا دی

محمد توحید

محمد توحید

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے

Related Posts

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

by یوسف بلوچ
فروری 11, 2023
0

پشتونوں کو باچا خان جیسے عدم تشدد کے حامی، ترقی پسند سوچ والے رہنما بھی ملے ہیں اور دہشت گردی اور انتہا...

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

by حسنین جمیل
جنوری 19, 2023
0

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور...

Load More
Next Post
اسٹال لگانے کے پیسے نہ دینے کی سزا، بااثر افراد نے خاتون کو آگ لگا دی

اسٹال لگانے کے پیسے نہ دینے کی سزا، بااثر افراد نے خاتون کو آگ لگا دی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

‘عمران خان اور شیخ رشید پاکستان کے جھوٹے ترین شخص ہیں’ (پارٹ 1)

‘عمران خان اور شیخ رشید پاکستان کے جھوٹے ترین شخص ہیں’ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 20, 2023
0

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
0

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In