پی ٹی آئی حکومت سے لاکھ اختلاف مگر 41 سال بعد پاکستان میں او آئی سی اجلاس تاریخی واقعہ

پی ٹی آئی حکومت سے لاکھ اختلاف مگر 41 سال بعد پاکستان میں او آئی سی اجلاس تاریخی واقعہ
میری فیس بک پر کچھ ایسے دوست بھی ہیں جو منفی خبریں دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان کی کسی گلی میں کتا مر جائے یا بلی گاڑی کے نیچے آجائے  تو وہ بھی فٹافٹ اپنی فیس بک پر آ کر لکھیں گے اور اس کا ذمہ دار بھی عمران خان کو قرار دیں گے۔

موجودہ حکومت سے بہرحال لاکھ اختلاف ہو سکتے ہیں مگر اکتالیس سال بعد پاکستان میں افغانستان کے مسائل کے حل پر بات کرنے کے لئے تمام مسلمان ممالک جمع ہوئے۔ یعنی او آئی سی کا اجلاس ہوا اور یہ اپنے طور پر ایک بہت بڑی اور تاریخی خبر ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے (او آئی سی کسی کام کی ہے یا نہیں یہ بالکل ایک الگ بحث ہے) اتنی بڑی تعداد میں تقریباً تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک وقت میں پاکستان آنا بہت ہی سود مند ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے بہت سارے فائدے پاکستان کو حاصل ہو سکتے ہیں مگر ان فیس بک رپورٹروں اور پاکستانی صحافیوں کی طرف سے اس موقع پر مکمل خاموشی حیران کن اور مایوس کن ہے۔ یعنی محبت یا درد وطن کا نہیں بلکہ اپنے اپنے پسندیدہ لیڈر کا ہے اگر وہ ہے تو وطن ہے اگر وہ نہیں تو اتنی بڑی خوشی پر بھی خوشی نہیں۔

اور اگر کچھ فیس بک رپورٹروں نے بات کی بھی تو کیڑے ہی نکالے، جی دیکھیں وہ کشمیر پر بات نہیں کی، فلسطین پر بات نہیں کی، نیازی نے یہ کیوں کہا یہ کیوں نہیں کہا وغیرہ وغیرہ، حالانکہ ایجنڈا افغانستان تھا مگر پھر بھی خان صاحب نے کشمیر پر کچھ بات ضرور کی مگر یہ فکری بد دیانت رپورٹر دوست اور پاکستانی صحافی شرم سے عاری ہیں۔

بین الاقوامی سیاست بھی ایک پوری سائنس ہے۔ اس کی ایک دو سادہ سی مثالیں یہ ہے کہ امریکہ اور چین اس وقت ایک دوسرے کے بڑے دشمن سمجھ لیں آئے روز ان کے درمیان کچھ نہ کچھ اختلاف چل رہا ہوتا ہے ہر محاظ پر یہ دونوں ملک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں مگر آپ کو پتہ ہے کہ امریکہ کو سب زیادہ قرض بھی چین نے ہی دیا ہوا ہے؟ امریکہ کی تمام بڑی کمپنیز نے اپنی فیکڑیاں چین میں لگائی ہوئی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کو ہی دیکھ لیں ساری ریاست کنکریٹ کی بنا دی صرف سیاحت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے، تمام ملکوں سے تعلقات بنا لئے چاہے اسرائیل ہی کیوں نہ ہو اور ہمارے لاکھوں لوگ عرب میں جا کر فخر سے نوکریاں کرتے ہیں۔ تو پھر آخر ہم کب یہ اقتصادی مفادات کی سیاست کو سمجھ سکیں گے؟

کیونکہ ہماری اوقات گلی محلے کی سیاست سے زیادہ کی ہے ہی نہیں تو ان فکری بددیانتوں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ ان بیچاروں کو کیا پتا کہ ملک میں ایسے بڑے اجلاس ہونے سے دنیا کا اعتماد بڑھتا ہے پوری دنیا کے اخباروں میں ملک کا نام اچھے حروف میں لکھا جاتا ہے بڑے بڑے سرمایہ کار دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔

سکیورٹی کے حوالے سے دنیا کے خدشات میں کمی آتی ہے سیاحت میں خاطر خواہ اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے پاسپورٹ کی عزت بڑھتی ہے جس سے لوکل کاروبار ترقی کرتے ہیں۔

سرمایہ کاری اور سیاحت کسی بھی ملک کی ترقی میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ روزگار کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں نئی نوکریاں نکلتی ہیں۔ برامدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں پیسہ آتا ہے جس سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا اور غربت میں کمی ہوتی ہے۔

 

عثمان الحق اوورسیز پاکستانی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور معاشرتی مسائل پر بھی لکھتے ہیں۔