ہم سے کہاں غلطیاں ہوئیں ؟

ہم سے کہاں غلطیاں ہوئیں ؟
اس مہینے کی ابتدا میں دو اہم خبریں پاکستان اور بھارت کے متعلق سننے کو ملیں جس سے ایک دن کے فرق سے وجود میں آنے والے دو ملکوں کے ترجیحات کا فرق واضح طور پر نظر آیا۔

ایک طرف ٹویٹر جیسے عالمی معیار کے ادارے کے سی ای او کا بھارت سے ہونا تو وہیں دوسری طرف ایک سری لنکن شہری کے پاکستان میں مذہب کے نام پر بہیمانہ قتل نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

ایک بھارتی شہری کا اس مقام تک پہنچنا شاید بھارت کے لیے کوئی بڑی خبر نہ ہو کیونکہ اس سے پہلے بھی بھارتی نژاد امریکن اس طرح کے بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

اس کی بہترین مثال گوگل کے سی ای او ہیں، جن کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلم بھارت کے شہر مدورائی سے حاصل کی۔ گوگل کے بعد ٹویٹر جیسی عالمی معیار کی کمپنی کا سی ای او ہونا یقینآ جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے شخص کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے اعزاز کی بات ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی خطے میں بسنے والے افراد کی سوچ میں کس حد تک فرق ہے۔ اس کامیابی کا جہاں بھارت بھر میں چرچا ہوا وہیں پاکستان میں بھی روشن خیال افراد کی طرف سے خوب ستائش کی گئی۔

مختلف لوگوں نے اس کی پاکستان کی ترجیحات سے موازنہ کیا۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک ساتھ آزاد ہونے والے دو ممالک کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔

پاکستان کو ابتدا ہی سے اندرونی اور بیرونی محاذ پر سیکورٹی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے برعکس بھارت کو ان مسائل کا سامنا کافی حد تک کم ہوا۔

1980ء کی دہائی میں جہاں پاکستان کو سویت افغان جنگ میں جانا پڑا، وہیں بھارت کے لوگوں نے دوسرے ممالک بالخصوص یورپ اور امریکا نقل مکانی کی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھارت میں 1980ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے بھارتی نژاد امریکن بڑے بڑے اداروں کے سربراہ ہیں اور پاکستان کو آج بھی گرے لسٹ اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ان چیزوں سے ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کی سیاسی، عسکری اور مذہبی طبقے سے ماضی میں کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی ہے۔ اگر ہم جنگ کی بجائے تعلیم، صحت اور روزگار کی جانب توجہ دیتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔

اس دہائی میں شروع ہونے والے مسائل نے یکے بعد دیگرے ایسے مسائل کو جنم دیا جس سے ملک میں آج بھی ان کے اثرات بجائے کم ہونے کے دن بدن بڑھ رہے ہیں، بالخصوص جنرل ضیاء الحق کی شروع کی گئی اسلامائزیشن ملک میں سائنس دان اور آئی ٹی کے ماہرین کے بجائے شدت پسند اور دہشت گرد پیدا کر رہی ہے۔

ملکوں کی تاریخ میں یقیناً اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ کامیاب اقوام کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ رجحان بہت کم پایا جاتا ہے۔ بجائے اپنی غلطی درست کرنے کے ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے سازش کی, وہ اس جرم میں شریک ہے وغیرہ وغیرہ۔

حالانکہ ملک میں بہت سے مسائل کا ذمہ دار حکمران طبقہ ہی تھا اور آج بھی ہے۔ اس کی کئی ایک مثالیں ہیں، مثلاً تعلیم کی بجائے روز اول سے دفاع کے نام پر زیادہ بجٹ خرچ کیا جس کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔

ملکی دفاع بھی بہت ضروری ہے لیکن جس ملک میں اندورنی طور پر اتنے مسائل ہوں وہاں بیرونی خطرات پر زیادہ تر بجٹ لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک میں آج بھی 59 فیصد شرح خواندگی ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ نظام صحت خستہ حالی سے دوچار ہے۔

ملک میں سیاسی افراتفری ہے۔ بےروزگاری پورے خطے میں آج بھی سب سے زیادہ ہے۔ مذکورہ بالا بحث س معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی قیادت نے ماضی میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ ان کا ازالہ اس میں نہیں کہ دوسروں پر الزام لگایا جائے بلکہ اپنی غلطی کو ماننا چاہیے اور آئندہ بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔

بھارت ہو یا کوئی اور ملک بجائے ان کی غلط چیزوں کو میڈیا میں دکھا کر عوام کو گمراہ کرنے کے ان کے اچھے اقدامات کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہیے جس میں سرفہرست ٹیکنالوجی ہے۔

اس شعبے میں بھارت نے بہت ترقی کی ہے۔ آج بھی اسے سامنے رکھتے ہوئے وہی اقدامات اٹھانے کی کوشش کرنا چاہیے جس پر عمل کرتے ہوئے بھارت آج آئی ٹی میں اس مقام تک پہنچا ہے۔

آج کم وبیش دس بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز بھارتی نژاد ہیں۔ اگر موقع فراہم کی جائے تو پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس میں سرفہرت ارفع کریم ہے جس نے محض نو سال کی عمر میں ایسے کام سرانجام دیے جو دنیا میں بڑے بڑے نہیں کر سکے۔

لہذا اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، وگرنہ آگے آنے والی نسلیں بھی اس طرح کے مسائل کا شکار ہوتی رہیں گی۔