جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے، مذہبی یا سیکولر؟

جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے، مذہبی یا سیکولر؟
"آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے اور کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے ۔۔۔۔ اس مملکت پاکستان میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں"۔

یہ الفاظ تھے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے جو انہوں نے پاکستان بننے سے محض تین روز قبل 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں کہے تھے۔ یاد رہے یہ وہی محمد علی جناحؒ ہے جنہوں نے کانگریس چھوڑ کر فقط اس لئے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی کہ کانگریس میں غالب اکثریت ہندو رہنماؤں کی تھی اور وہ ہندو مفاد کی زیادہ پیروی کرتے تھے۔ جب کہ مسلم لیگ ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت تھی اور اسی محمد علی جناحؒ کی سربراہی میں مسلم لیگ نے مذہب کے نام پر الگ ریاست کی تحریک چلائی اور مملکت پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا۔ یہی وہ وجوہات تھیں جنہوں نے آزاد خیال اور ترقی پسند محمد علی جناحؒ کو مسلمانوں کے مذہبی حلقوں کا بھی لیڈر بنا دیا تھا۔

مگر مسلمان علما کی اس حمایت نے جناح کو ایک متنازع شخصیت بنا دیا اور یہ معمہ آج تک حل نہ ہو پایا کہ جناح اسلامی نظریات کے حامی تھے یا سیکولر نظریات کے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں یہ جھگڑا چل رہا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طول پکڑ رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا چاہتی ہیں کیونکہ پاکستان اسلام کا نعرہ لگا کر بنایا گیا تھا جب کہ ترقی پسند لوگوں کا ماننا ہے کہ قائداعظم نے اپنے خطبات میں بارہا کہا تھا کہ پاکستان میں مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات کی کوئی تقسیم نہ ہو گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے۔ قائداعظم کن نظریات کی بنیاد پر ریاست کا نظام چلانا چاہتے تھے؟ اگر جناح سیکولر تھے تو ریاست حاصل کرنے کے لئے مذہب کا کارڈ استعمال کیوں کیا؟ اور اگر جناح ریاست مدینہ کی طرز کی ایک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے تو پھر 11 اگست 1947 کے خطاب میں یہ کیوں کہا کہ "آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے ۔۔۔ مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی راست کے برابر کے شہری ہوں گے"؟

اگر جناح کی شخصیت کے اس تنازع کو غیر جانبداری کے ساتھ دونوں زاویوں سے دیکھا جائے تو دونوں ہی  طبقہ فکر کے لوگ اپنی اپنی جگہ درست ہیں مگر جناح کی شخصیت سے متعلق اس الجھاؤ کو تب ہی سمجھا جا سکتا ہے اگر جناح کی زندگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش شیعہ اسماعیلی خاندان میں ہوئی، ابتدائی تعلیم سندھ مدرسۃ السلام سے حاصل کی مگر پھر 1992 میں انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ جناح ایک گجراتی خاندان سے تھے جو کہ کراچی منتقل ہو گیا تھا مگر جناح کو گجراتی آتی تھی نہ اردو روانی سے بول پاتے تھے۔ صرف انگریزی زبان تھی جو جناح انگریزوں کی سی بولتے تھے۔ جناح کو اداکاری کی طرف رغبت تھی۔ انہوں نے تھیٹر کی ایک ڈرامہ نگار کمپنی کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ بھی کر لیا تھا مگر اپنے والد کی شدید مخالفت پر انہوں نے اپنا یہ شوق ترک کر دیا۔ اسی دوران جناح مغربی لبرلزم سے کافی متاثر ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ انیسویں صدی کے مغربی فلسفی Jeremy Bentham, John Stuart Mill, Herbert Spence ,Auguste Comte  تھے۔

جناح مغربی طرز کا لباس زیب تن کرنا پسند کرتے تھے اور ان کا طرز زندگی کسی صورت جدید سوچ کے حامل مغربی نوجوانوں سے کم نہ تھا۔ ہندوستان واپس آ کر انہوں نے کانگریس کے ساتھ سیاسی سفر کا آغاز کیا مگر باغیانہ سوچ کے حامل جناح اکثر اپنی تقاریر میں کانگریسی نقطہ نظر سے اختلاف کرتے نظر آتے تھے۔

ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو جناح نے اپنے پارسی دوست سر دشنا پاتت کی بیٹی رتن بائی سے شادی کی جو کہ جناح سے 24 سال چھوٹی تھیں۔ رتن بائی نے شادی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف جاتے ہوئے کی۔ بعد ازاں شادی انہوں نے اپنا نام تبدیل کر کے مریم جناح کر لیا۔ ان سے قائداعظم کی اکلوتی بیٹی دینا جناح پیدا ہوئی۔ جناح نہ تو کامیاب شوہر ثابت ہو پائے اور نہ ہی اچھے والد۔ جناح کی بیٹی نے اپنے والد کی خواہش کے خلاف ایک پارسی نوجوان نیولی واڈیا سے شادی کر لی جس کے رد عمل میں جناح نے انہیں عاق کر دیا۔

ہندوستان کی سیاست میں آنے کے بعد جناح کو احساس ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو درست سمت میں رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف کانگرس تھی جس کو ہندو عقائد کے رہنما چلا رہے تھے جن کے لئے مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنا ناممکن تھا اور دوسری جانب مسلم لیگ تھی جس کی سیاسی ساخت محض ایک نام سے زیادہ کچھ نہ تھی اور اس میں شامل زیادہ تر رہنما مذہبی عقائد پر چلنے والے سخت طبیعت کے حامل تھے۔ جناح سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ایک ترقی پسند نظریات کے حامل نرم رویہ رکھنے والے رہنما کی ضرورت ہے جو کہ انگریزوں کے سامنے مسلمانوں کی درست طریقے سے ترجمانی کر سکے۔ یہی جناح کی مسلم لیگ میں شمولیت کی وجہ تھی۔ 1919 میں تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو مسلم رہنماؤں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے مسلمانوں کے جذبات ابھارے۔ قائداعظم اس کے خلاف تھے۔ بعد ازاں گاندھی کی تحریک عدم تعاون کی بھی شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے جناح کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب جناح سیکولر ترکی کے بانی مصطفیٰ اتاترک کے پرستار تھے اور اپنی بیٹی دینا واڈیا سے اکثر کمال اتا ترک کے کارناموں کے بارے میں تذکرہ کرتے تھے۔ یہ وہ حقائق تھے جو ظاہر کرتے ہیں کہ جناح نوجوانی سے ہی لبرل سوچ کے حامل انسان تھے تو پھر دنیا کی طبیعت میں بدلاؤ کب آیا؟

جناح مسلمانوں کے حقوق کی بات آغاز سے ہی کرتے رہے تھے مگر انہوں نے کبھی سیاست میں مذہب کا سہارا نہیں لیا تھا۔ بلکہ وہ ماضی میں اس کے شدید مخالف نظر آئے۔ مگر پھر پہلے نہرو رپورٹ نے جناح کو دو قومی نظریے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا اور بعد ازاں 1935 کے انتخابات کے بعد کانگریس کا مسلمانوں کی جانب رویہ دیکھ کر جناح یہ جان چکے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمان ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ لہٰذا انہوں نے اس بات پر زور دینا شروع کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اندر ایک الگ ریاست دی جائے۔ مگر آغاز میں یہ مطالبہ ایک الگ ملک کا نہ تھا اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جناح کو ثابت کرنا تھا کہ ہندو اور مسلمان دونوں الگ قومیں ہیں اور اس کے لئے مذہب کا سہارا لینا ناگزیر تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی حیثیت ایک بے ہنگم گروہ سے زیادہ کی نہ تھی۔ لہٰذا اس کو مسلمانوں کے درمیان مقبول کرنے کے لئے جناح کو مذہبی اور روحانی شخصیات کا سہارا لینا پڑا۔

پیر سید جماعت علی شاہ کا شمار ان مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب پیر جماعت علی شاہ سے پوچھا گیا کہ آپ ایک ایسے شخص کی حمایت کیوں کرتے ہیں جو قول و فعل میں انگریزوں سے مختلف نہیں دکھتا تو اس پر پیر جماعت علی شاہ نے کہا کہ مجھے جناح کے علاوہ پورے ہندوستان میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آ رہا جو مسلمانوں کو ایک الگ ریاست دلوا سکے۔

1940 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی مسلمان جوق در جوق مسلم لیگ کی حامی بننا شروع ہو گئی۔ یہ ان مذہبی شخصیات کی ترجمانی تھی کہ جناح مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما بن کر ابھرے اور 1945 کے انتخابات میں تمام مسلم اکثریتی صوبوں بشمول شمال مشرقی سرحدی صوبے میں کامیابی حاصل کی جہاں اس سے پہلے کانگرس راج کرتی تھی۔ یہ تمام شواہد درست ہیں کہ جناح نے مذہب کی مدد سے ملک حاصل کیا۔

مگر تحقیق بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جناح غیر مسلموں کے حقوق کی ترجمانی کرتے نظر آئے۔ اس کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ قائد اعظم کا وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان احمدی تھے۔ اس کے علاوہ بیشتر وزارتیں بشمول وزارت قانون و انصاف اور وزارت امور کشمیر غیر مسلموں کے پاس تھیں۔ جناح نے پاکستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بنایا مگر وہ اسے ایک اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں معروف مذہبی سکالر جاوید احمد غامدی نے بتایا کہ قائد اعظم جانتے تھے کہ اس ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لئے انہوں نے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں مسلمان پارلیمنٹ کے اندر اپنے عقائد کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیں گے لیکن اگر پارلیمنٹ میں موجود لوگ درست رہنمائی نہیں کر رہے ہوں گے تو پھر آئین پاکستان کے اندر فقط اس کو اسلامی فلاحی ریاست لکھ دینے سے یہ حقیقی فلاحی ریاست نہیں بن جائے گی۔

2004 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران دینا واڈیا پاکستانیوں سے سخت نالاں نظر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میرے والد سور کا گوشت کھاتے تھے یا نہیں، شراب پیتے تھے یا نہیں؟ مگر ان کو ان اصولوں سے کوئی واسطہ نہیں جو میرے والد نے اس ملک کو ایک عظیم فلاحی مملکت بنانے کے لئے واضح کیے تھے۔