مری کے حالات تشویشناک، سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں، 36 گھنٹے گزرجانے کے باوجود کوئی امداد نہ پہنچ سکی

مری کے حالات تشویشناک، سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں، 36 گھنٹے گزرجانے کے باوجود کوئی امداد نہ پہنچ سکی
مری میں ہونے والے افسوسناک سانحے کی پہلی ذمہ داری حکومت پنجاب اور مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جنہیں معلوم بھی تھا کہ مری میں رش گنجائش سے کہیں زیادہ ہے تو عوام کو ٹویٹر پر روکنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔ سیاحت کے حوالے سے یہ حکومت پر زور دیتی ہے مگر انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کیا صرف زبانی جمع خرچ۔

حکومت کے بعد سیاح ذمہ دار ہیں جب آپکو معلوم ہےکہ موسم خراب ہے اور رش گنجائش سے زیادہ ہوچکا تو آپکو وہاں کا رخ نہیں تھا کرنا چاہیے تھا ۔

این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے ایک ہفتہ قبل الرٹ جاری کیا تھا تمام متعلقہ محکموں اور میڈیا کو بھی بھیجا گیا۔

میڈیا والے سہانے موسم، ملکہ کوہسار مری نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی، سیاحوں کی مال روڑ مری پر موج مستیاں والے پیکجز تو خوب چلاتے ہیں مگر کسی ٹی وی چینل نے عوام کو پیشگی خطرے سے آگاہ نہیں کیا۔ بتایا جاتا کہ مری کی جانب سفر آپکی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا آگاہی لازمی تھی نہیں دی گئی کیونکہ ایسی چیزوں پر ریٹنگ نہیں آتی۔

اب آتے ہیں مری کے مقامی تاجروں اور لوگوں کی جانب جب آج یہ سانحہ ہوا تو بہت سی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں مقامی لوگ بڑھ چڑھ کر لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف تھے اور ابھی بھی کر رہے ہیں اپنے گھروں کے دروازے کھولے گئے کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر مقامی لوگ اور کچھ ہوٹل مالکان کی جانب سے پوسٹیں کی جا رہی ہیں کہ اگر کوئی سیاح جو کو مدد کریں ضرورت ہو تو وہ ہمارے ہوٹل میں آ سکتا ہے کوئی معاوضہ نہیں لیا جائے گا۔

دوسری جانب موقع پرست لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ دنیا، جیو نیوز اور ڈان کے رپورٹرز کے مطابق کل رات ہوٹل مالکان ایک رات گزارنے کا 20 سے چالیس ہزار روپیہ مانگ رہے تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں نے ہوٹلوں میں جانے کی بجائے اپنی گاڑی میں ہی رات گزارنا مناسب سمجھا اور ان میں سے کچھ بدقسمت لوگ جو مری میں پکنک ماننے آئے ہوئے تھے زندگی کی بازی ہار گئے۔ گاڑیوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی ایک وجہ گاڑی کا شیشہ بند کرکہ ہیٹر آن رکھنا بھی بتائی جارہے ہیں۔

سما ٹی وی سے بات کرتے سیالکوٹ کے ایک سیاح نے بتایا برف کی وجہ سے پھنسی گاڑیوں کو نکالنے میں استعمال ہونے والی چین مقامی لوگو ہزاروں میں ییچ رہے ہیں مقامی ڈرائیور برف سے گاڑی نکالنے کیلئے سیاحوں سے پانچ ہزار روپے تک وصول کررہے ہیں۔ ابھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جو گلہ کررہا تھا کہ مری میں اس وقت مری میں پانی کی بوتل پانچ سو میں بیچی جارہی ہے۔

مری کے حالات اس وقت کیا ہیں کسی کو اندازہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت مری میں بجلی بند ہے انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے مقامی انتظامیہ اور آرمی کے جوان ریکسیو آپریشن تو کررہے ہیں مگر ابھی بھی سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں 36 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان لوگوں کے پاس کوئی امداد نہیں پہنچ سکی اور نہ ہی ریسکیو کا آپریشن وہاں شروع کیا جاسکا۔

حکومتی ریسکیو آپریشن کا پول اس وقت کھلا جب مری کے ایک مقامی شخص جو ویدر گورو نامی پیج سے لائیو تھے انہوں نے اپنے گھر سے باہر کی صورتحال بتائی اور لوگوں سے بات چیت کی جو 36 گھنٹوں سے وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں جنہیں ابھی تک ریسکیو نہیں کیا جاسکا۔

جو صورتحال اس لائیو سٹریم میں میں نے دیکھی ہے اس سے پریشان مزید بڑھ گئی ہے حکومت کو چاہیے کہ ریکسیو آپریشن مزید تیز کیا جائے سینکڑوں گاڑیاں ابھی بھی مری کے مختلف مقامات پر پھنسی ہوئی ہیں سب اچھا ہے کی خبر غلط ہے اس وقت مری کے حالات بہت تشویشناک ہیں اور غفلت برتی گئی تو ہم کئی اور قیمتیں جانوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

مصنف نے جامعہ گجرات سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے اور ڈیجیٹل صحافت سے منسلک ہیں۔