اومیکرون کا پھیلائو اور ذہنی صحت پر اثرات

اومیکرون کا پھیلائو اور ذہنی صحت پر اثرات
کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ایک تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جسے حکام اور عوام دونوں نے سنجیدگی سے نہ لیا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کورونا وائرس کی نئی قسم جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور اس کے مثبت کیسز کا تناسب انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انفیکشن کی شرح ایک ہفتے کے اندر 50 فیصد سے 81 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

ملک بھر میں یومیہ اوسطاً پچاس ہزار ٹیسٹ ہوتے ہیں جو کہ ہماری 22 کروڑ کی آبادی کے تناسب سے بہت کم تعداد ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

جنوبی افریقہ اور برطانیہ  میں رپورٹ ہوئے کیسز سے پتا چلتا ہے کہ اومیکرون کی علامات کی شدت کم ہے۔ مریضوں کو کم سے کم ہسپتالوں میں داخل ہونے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن ڈبلیو ایچ او نے اسے کم خطرناک قرار دینے کے حوالے سے خبردار کیا ہے کیونکہ اس کی پھیلنے کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہ پوری دنیا میں اموات کا باعث بن رہا ہے۔

اگرچہ اعدادوشمارسے پتا چلتا ہے کہ بہت کم لوگ بیمار ہوئے لیکن کئی ممالک کے ہسپتالوں میں مثبت کیسز کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کراچی کے ماہرین صحت نے پہلے ہی ہسپتالوں میں داخلوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

دریں اثنا غیر علامتی اومیکرون مثبت مریض کمیونٹی میں وائرس کے پھیلاؤ کو بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ عوام کے ساتھ اختلاط جاری رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کے لئے سخت تشویش کا باعث ہے جس کی ایک تہائی آبادی یعنی 73 ملین افراد مکمل ویکسین شدہ ہیں۔ باقی یا تو جزوی طور پر ویکسین شدہ ہیں یا غیر ویکسین شدہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اومیکرون ویکسین کروانے والے شہریوں کو بھی متاثر کر رہا ہے، لیکن ان لوگوں میں بیماری کی شدت بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے جو مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ اس صورت حال میں احتیاط ہی واحد نجات ہے۔

کورونا وائرس پاکستان میں پانچویں لہر کی صورت میں داخل ہو رہا ہے۔ حکومت کو عوام کی صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے تحفظ کے لئے فوری کارروائی کرنا ضروری ہے کیونکہ عوام ایک اور لاک ڈائون کی وجہ سے ہونے والے مالی اور معاشی خسارے اور ذہنی صحت کا دبائو برداشت نہیں کر سکتی۔

ماضی میں ہونے والے لاک ڈائون کی وجہ سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل میں سے ایک سنگین مسئلہ بے روزگاری کا رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش کھویا ہے اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بے روزگاری اور ذہنی صحت کا گہرا تعلق ہے۔ ملازمت میں کمی اور عدم تحفظ ناصرف لوگوں کے سماجی تعلقات اور طرز عمل کو بری طرح متاثر کرتا ہے، بلکہ آبادی کے بے روزگار طبقے میں ذہنی صحت کے مسائل جس میں ڈپریشن، ذہنی اضطراب، تناؤ اور دائمی بیماریوں میں اضافہ (دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر، اور عضلاتی عوارض) کے امکانات کو بھی بڑھاتا ہے۔

علاوہ ازیں، کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کے دوران ملک بھر میں گھریلو اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا اور رپورٹ کیا گیا ہے۔

اس اضافے کی ایک بڑی وجہ گھر کے سربراہ کا ملازمت سے محروم یا اپنے روزگار کے حوالے عدم تحفظ کا شکار اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے سے قاصر ہونا ہے۔ اس رجحان نے پورے گھرانے، سماجی ڈھانچے اور خاندانی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

نوجوانوں میں خاص طور پر بے یقینی کی کیفیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی حوالے ایک آگاہی مہم شروع کی گئی ہے جو کہ لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے حوالے سے مفت مشورہ فراہم کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس آگاہی مہم کا نام "احتیاط، واحد نجات" ہے اور اس مہم کے تحت "خیال" کے نام سے ایک ہیلپ لائن متعارف کروائی گئی ہے جہاں ماہرین نفسیات ذہنی امراض پر مفت مشورہ اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

یہ ایک خوش آئند عمل ہے لیکن ایسے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جن کی بدولت مشکلات کے اس دور میں لوگوں میں امید کی شمع روشن کی جا سکے اور انہیں بہتر زندگی کی طرف راغب کیا جا سکے۔