• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, مارچ 21, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

ماریہ جی رہی ہے کیونکہ وہ جینا چاہتی ہے

بابر علی پلی by بابر علی پلی
فروری 7, 2022
in عوام کی آواز
7 0
0
ماریہ جی رہی ہے کیونکہ وہ جینا چاہتی ہے
39
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

آپ نے ایسے کئی کتب اقر افسانے پڑھے یا سنیں ہونگے جن میں عورت شدید ترین مظلوم دکھائی اور بیان کی گئی ہوگی۔ ایسی فلمیں اور ڈراموں کی تو بہتات ہے، جہاں پر عورت کی مظلومیت ہمہ وقت غالب ہوتی نظر آتی ہے۔ گویا یہ کہیں کہ عورت ہمارے فلم یا ڈرامہ سازوں کے لئے اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بنی معلوم ہوتی ہے۔

دنیا کا ادب تو عورت اور اس کی مظلومیت سے بھرا پڑا ہے۔ میں نے بھی افسانوی اور فلمی کرداروں کی حد تک عورت کو شدید ترین مظلوم، بے بس، اور لاچار پایا تھا۔ میں اس حقیقت پر بھی یقین رکھنے والوں میں سے ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد کے برابر تو کیا بلکہ ایک انسان کے طور پر بھی سہی معنوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔

RelatedPosts

فارما انڈسٹری کو ‘بدترین بحران’ کا سامنا، زندگی کے لیے ضروری ادویات کی قلت کا خدشہ

قصوروار صرف دعا زہرہ نہیں

Load More

مجھے شاید آپ ان لوگوں کی صف میں شامل کر سکتے ہیں جو عورت کو ایک بہن، بیٹی، ماں یا بیوی سے پہلے ایک انسان کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں نسوانی حقوق کا قائل ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عورت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں مرد جتنا ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اگر انہیں مرد کے مساوی مواقع فراہم کئے جائیں۔

ہمارے معاشرے کا تو چلن ہی الگ ہے۔ اگر عورت اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرے تو وہ بدکردار، بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا، مغربی کلچر کو فروغ دینی والے، اسلام مخالف اور نجانے کیا کیا کہلائی جاتی ہے۔ میرے خیال سے ہاں ہر وہ عورت جو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہے وہ بد کردار ہے۔ وہ بد کردار ہی نہیں بلکہ عقل اور سوچنے اور سمجھنے سے عاری بھی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں اپنے حق کی بات کرتی ہے، جہاں اس کی گواہی تک کو آدھی گواہی مانا جاتا ہے۔

بہرحال یوں تو عورتوں کی مظلومیت کے قصے اور کہانیاں تو بے انتہا ہیں۔ لیکن، اُس وقت میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں حواس باختہ ہو گیا، جب مجھے ماریہ (فرضی نام) کی اس حقیقی کہانی کا علم ہوا۔

شاید، آج اگر منٹو زندہ ہوتا تو وہ اپنے تخلیق میں ماریہ کا ضرور اضافہ کرتا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی جس نے عورت اور اس کے دکھ درد کو اپنی شاعری میں نمایاں جگہ دی، کیا پتا اگر آج شاہ لطیف ہوتے تو ماریہ اس کی آٹھویں سورمی ہوتی۔

ماریہ کی زندگی مسلسل دکھ، درد اور تکلیفوں کا وسیع ساگر ہے۔ شاید اس کچی سی عمر میں ہی دکھ، درد، تکلیفوں اور صعوبتوں کو اس نے اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ ماریہ کوئی افسانوی کردار نہیں بلکہ ایک حقیقی زندگی میں وجود رکھنی والی ایک کچی عمر کی لڑکی کی سچی کہانی ہے جو آج تک دنیا کی سارے درد اور تکالیف ساتھ لئے جئے جا رہی ہے۔

تین سال پہلے تک ماریہ ایک مختصر سے خاندان جس میں اس کا والد، اس کی ماں اور بھائی شامل تھے دبئی میں ایک انتہائی شاندار زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے والد دبئی میں ایک کاروباری شخصیت تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ماریہ کی ماں کی طبیعت بگڑنے لگی، جس کی وجہ سے ان کے خاندان کو دبئی چھوڑ کر لاہور اپنے آبائی علاقے آنا پڑا۔ جہاں پر کچھ وقت علیل رہنے کے بعد اس کی ماں جانبر نہ ہوسکیں۔

ماں کی آنکھ بند ہونے کے ساتھ ماریہ کے لئے گویا دکھ، درد اور تکلیفوں کا نہ ختم ہونے والا سیلاب شروع ہوگیا۔ والد کا کاروباری معاملات میں مصروف اور بھائی کا دوستوں کے ساتھ سارا دن گزارنے کی وجہ سے وہ اکیلی رہنے لگی۔ پھر ماریہ کی دادی کو اس کے والد کی دوسری شادی کی سوجھی اور یوں ماریہ کی کہانی میں سوتیلی ماں کا کردار شامل ہوگیا۔

اس ماں نے مکمل طور پر فلمی اور افسانوی کرداروں والی سوتن کا کردار ادا کیا۔ قتل کرنے کی کوشش، ہر طرح سے اذیت میں مبتلا کرنے، کئی دفعہ باقاعدہ گرم استری سے جسم کو جھلسایا گیا، بھوک اور پیاس میں رکھی گئی۔

سوتن ماں کی طرف سے شاید ہی کوئی اذیت ہو جو ماریہ کو نہ پہنچائی گئی ہو۔ اسی دوران اس کے والد اور بھائی نے بھی اس سے منہ موڑ لیا بلکہ شاید وہ اس کے وجود سے انکاری ہوگئے۔ اب بھائی کی طرف سے بھی تشدد اس کے لئے روز کا معمول بن گیا۔ ایک کالج کی لڑکی کے لئے شاید یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ وہ اپنی کالج کی انتہائی ہونہار طالبعلم تھی۔ وہ کالج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی۔ جس کے بعد لاہور کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں پر قابلیت کی بنا پر اپنی تعلیم کے دوسرے سال میں سٹوڈنٹ آف دی ایئر کے ایوارڈ سے نوازی گئی۔

کالج ختم کرنے کے فوراً بعد اس نے ننہال کو رخت صفر باندھ لیا جو لاہور میں تھے۔ شاید، اس نے سوچا ہوگا کہ ننہال میں اسے سکھ کا سانس لینا بالاخر نصیب ہو ہی جائے گا۔ لیکن، کسے معلوم ننہال میں اس کے لئے شانتی نہایت عارضی اور مختصر الوقت رہے گی۔

بہرحال، کچھ ہی وقت میں وہاں پر بھی مختلف طریقوں سے اس کے لئے مصیبتیں شروع ہو گئیں۔ سب سے پہلے ماریہ کی خالہ نے اس کا جینا اجیرن کر دیا۔ پھر یونیورسٹی میں اس کے ساتھ ایک انتہائی غیر انسانی سلوک کیا گیا، جس کا کرب وہ آج تک بردشت کر رہی ہے۔ فٹبال کا زوردار وار کر کے ماریہ کی ریڑھ کی ہڈی تقریباً توڑ دی گئی۔ اس حملے کے پس پردہ عناصر کسی طریقے سے جیل کی سلاخوں تک تو پہنچے لیکن رفتہ رفتہ انہیں قانون سے رہائی مل گئی۔

اس کے بعد ماریہ کی کہانی میں اس کی خالہ کی انٹری ہوئی لیکن وہ بھی اس کی خیر خواہ ثابت نہ ہوئی۔ ماریہ کے ساتھ غیر انسانی اور پل پل اذیت میں رکھنے کا معمول یہاں بھی برقرار رکھا گیا۔ ماریہ سانس اور گردوں کی تکلیف میں تو پہلے سے ہی مبتلا تھی اب یہ ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ بھی شامل ہو گیا۔

اس تکلیف میں اس کی خالہ کی طرف سے علاج کچھ اس طرح کرایا گیا جس سے تکلیف دوگنی ہوگئی۔ تکلیف کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی چلی گئی۔ ماریہ کی کہانی میں جو بھی آیا اس نے بھرپور نمونے اور اپنی پوری صلاحیت سے ولن کا کردار ادا کیا۔ گویا اس پوری دنیا میں ماریہ کا خیر خواہ کوئی نہیں تھا۔ ایسے میں اس کی ایک دوست نے اس کا ہاتھ تھاما اور ان تکالیف سے ریسکیو کرانے کی ٹھان لی۔

ماریہ نے اپنی خالہ کے گھر سے سامان سمیٹا اور اب اپنی دوست کے ساتھ رہنے لگی۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ ماریہ کا علاج اس کی تکلیف کے متضاد چل رہا تھا اور اسی وجہ اس کی تکلیف شدید سے شدید تر اور مزید پیچیدہ ہوگئی۔

ابھی ماریہ علاج کے صحیح پٹڑی پر آئی ہی تھی کہ وہ کورونا کا شکار ہو گئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ کالے جادو کے شدید گھیرے میں جکڑی جا چکی ہے۔

دکھ، درد، اذیت، تکلیف، کرب اور ان سے آگے بھی دکھوں کا یہی سلسلہ گویا رمز عظیم آبادی نے یہ شعر ماریہ کے لئے ہی کہا تھا کہ “یہ زندگی سزا کے سوا کچھ بھی نہیں”۔

ان ساری تکالیف، دکھ اور اذیتوں کو برداشت کرنے کے بعد ماریہ آج بھی لبوں پر مسکراہٹ لئے درگزر کا جذبہ رکھے زندگی جی رہی ہے کیونکہ ماریہ جینا چاہتی ہے۔

(نوٹ: یہ لاہور کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں پڑھنی والی طالبہ کی سچی کہانی ہے)۔

Tags: domestic violenceFamilyLifemedical studentزندگیگھریلو تشددمیڈیکل طالبہ
Previous Post

لتا جی کا غم، شاہ رخ خان کا تھوک، اور ٹوئٹر پر جنت و دوزخ کے فیصلے

Next Post

امپائر نے پوزیشن بدل لی، تبدیلی پارلیمنٹ کے اندر ہونے کا امکان، سیاسی منظر واضح، حکومت کے اعصاب شل

بابر علی پلی

بابر علی پلی

Related Posts

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

پشتونوں کے لئے غیر مسلح منظور پشتین اقبال کا مردِ مومن ہے

by یوسف بلوچ
فروری 11, 2023
0

پشتونوں کو باچا خان جیسے عدم تشدد کے حامی، ترقی پسند سوچ والے رہنما بھی ملے ہیں اور دہشت گردی اور انتہا...

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

by حسنین جمیل
جنوری 19, 2023
0

سوچتا ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، یادوں کا ایک سیلاب ہے جس میں بہتا جا رہا ہوں۔ خالد چودھری صحافت اور...

Load More
Next Post
امپائر نے پوزیشن بدل لی، تبدیلی پارلیمنٹ کے اندر ہونے کا امکان، سیاسی منظر واضح، حکومت کے اعصاب شل

امپائر نے پوزیشن بدل لی، تبدیلی پارلیمنٹ کے اندر ہونے کا امکان، سیاسی منظر واضح، حکومت کے اعصاب شل

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 20, 2023
0

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
0

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In