جنگوں میں خواب، خواہشیں، امیدیں اور انسانیت تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے

جنگوں میں خواب، خواہشیں، امیدیں اور انسانیت تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے
ایک باپ ہے جو اندر سے ختم ہو چکا ہے، اس کے لئے یہ جہاں اب بے رنگ و بے معنیٰ ہوگیا ہے، اب اس کی زیست میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے، اس کے پاس اب جو رہ گیا ہے وہ تصاویر کا وہ مرقع ہے کہ جس میں اس کے جگر گوشے کی تصویر ہے۔

اس کی ایک ماں ہے۔ اب اس کی زندگی میں محض ماتم، آہیں اور سسکیاں ہیں۔ اس کے لئے اس دنیا میں اب اپنے وجود ہونے نہ ہونے سے کوئی گریز نہیں رہا۔ وہ اس کی بہن ہے، وہ جو سب سے الگ ہو کر رو رہی ہے، ماتم کر رہی ہے، ماتم بھی ایسا جو عرش کو لرزا دے، وہ جس کا یہ غمگسار تھا۔ اس بے رحم دنیا میں، جس کو وہ اپنی خواہشیں بتلا سکتی تھیں۔

وہ، جو چھپ چھپا کر ایک طرف نکڑ میں منہ کر کہ بیٹھا ہے ناں، جو بڑا مضبوط ہونے کی اداکاری کر رہا ہے وہ اس کا بھائی ہے۔ آپ نے ابھی اسے کا چہرہ دیکھا ہے؟ اگر دیکھو گے تو شاید اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکو۔

ہاں، ایک وہ بھی ہے جس کے ساتھ وہ منسوب کیا گیا تھا۔ وہ اس کی منگیتر۔ یہ منظر اس گھر کا ہے کہ جہاں خبر پہنچی ہے کہ کل رات ان کا جگر گوشہ جنگ میں چند لوگوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جنگوں میں صرف انسان نہیں مرتے، جنگوں میں خواب، خواہشیں، امیدیں اور انسانیت بھی تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہے۔

فلسطینی شاعر محمود درویش لکھتے ہیں "جنگ ختم ہو جائے گی۔ لیڈر آپس میں صلح کر لیں گیں۔ ضعیف عورت اپنے شہید بیٹے کا انتظار کرتی رہے گی۔ وہ لڑکی اپنے شوہر کا انتظار کرے گی۔ اور وہ بچے اپنے والد کی راہ تکتے رہیں گیں۔ مجھے نہیں معلوم ہماری زمین کس نے فروخت کی، لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ اس کی قیمت کس نے چُکائی"۔

روس نے یوکرین پر دھاوا بول ڈالا۔ کئی معصوم بچے گولا باری، بم بارود اور ٹینکوں کی خوف ناک شور کی وجہ سے سو نہیں پا رہے۔ یوکرین کی وہ عوام جنہیں ان دونوں ممالک کے چند مفاد پرست لوگوں کے مفاد سے کوئی سروکار نہیں، وہ اپنی، اپنے اہل وعیال کی جان کی امان مانگ رہے ہیں۔

پھر، اس ساری صورتحال کو دیکھنے والے تماش بین اور ان تماش بینوں میں مختلف طبقات ہیں۔ ایک طبقہ جو کہ روس کی مخالفت میں ہے جبکہ دوسرا طبقہ یوکرین کا مخالف ہے۔

ایک طبقہ یہ دلیل دیتے ہوئے کہتا ہے چونکہ یوکرین ایک خود مختار ملک ہے کہ جس کی سالیمت اور خود مختاری ختم کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے روس حملہ آور ہوا ہے، اس لئے انہیں اس جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنی چاہیے۔

ایک طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ یوکرین عالمی طاقتوں کی معاونت سے روس کا محاصرہ کر رہا تھا تو اس وجہ سے انہیں روس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اس جنگ میں روس کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔

پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو روس کو اس لئے سپورٹ کر رہا ہے کہ روس سامراجی طاقتوں کے خلاف بندوق تانے کھڑا ہے جبکہ دوسرے طبقے کا جھکاؤ روس کی مخالفت میں ہے کہ وہ سمجھتا ہے روس میں اب عملاً اشتراکیت تو رہا نہیں لحاظہ روس بھی چاہے کم طاقتور لیکن سامراج ہے۔

ایک طبقہ روس کی طرف اس لئے جانبدار ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یوکرین اگر مکمل طور پر امریکا کے ہاتھوں میں چلا گیا تو وہ اسے بھی افغانستان کی طرح استعمال کرے گا اور بعد میں بڑی تباہی ہوگی، بہت لوگ مریں گے، اس لئے ابھی کم لوگ مریں یہ سہی۔

جبکہ کچھ لوگ اس جنگ میں اس لئے یوکرین کی طرف جانبدار ہیں کیونکہ اس جنگ میں روس کی مخالفت خود روس کے شہری احتجاج کی صورت میں کر رہے ہیں۔ یہ دونوں طبقات یا تماش بینوں کے جتھے ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان طبقات یا جتھوں کے پاس ایک دوسرے کی مخالفت میں بڑے مضبوط دلائل بھی ہیں۔

لیکن، آپ کو پتا ہے ان میں ایک چیز مشترک ہے، وہ یہ کہ دونوں جنگ کی حمایت میں ہیں۔ ایک روس کی طرف سے تو ایک یوکرین کی طرف سے۔ ان میں سے انسانیت کی طرف کوئی بھی جانبدار نہیں۔

ان سے کوئی پوچھے کہ کیا جنگ بھی بھلا کسی مسئلے کا حل ہوتی ہے کیا؟ جنگ سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے کیا؟ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے۔ ان نادانوں کو کوئی بتائے کہ جنگوں میں فاتح کوئی نہیں ہوتا۔ ایک وہ ہوتے ہیں جو مرتے ہیں، ایک وہ ہوتے ہیں جو بچ جاتے ہیں۔ جنگیں کوئی نہیں جیتتا کیوں کہ جنگیں جیتی نہیں جاتیں۔