• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, جنوری 31, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پولیو کو شکست دینے والے شخص کی ریاست سے اپیل

عصمت الله نیازی by عصمت الله نیازی
نومبر 18, 2019
in صحت, عوام کی آواز, میگزین
6 0
0
پولیو کو شکست دینے والے شخص کی ریاست سے اپیل
32
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پچاس کی دہائی کے آخر میں پولیو کا مرض پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ اس موذی مرض کا شکار ہونے اور اس سے زندگی کی بقا کی جنگ لڑنے کے ناطے میں اس مرض کی اذیت، تکلیف اور اس کے نتیجے میں سماجی رویوں کے باعث ملنے والی شرمندگی کو باآسانی سمجھ اور بیان کر سکتا ہوں۔ میں ڈسٹرکٹ میانوالی کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کے دور افتادہ گاؤں کھاگلانوالا میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں دریائے کرم کے کنارے آباد ہے جب کہ اس کے مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے۔

جب میں پولیو کے مرض کا شکار ہوا تو مجھے علاج کیلئے ملٹری ہسپتال بنوں لے جایا گیا۔ میانوالی میں کہیں بھی پولیو کے مرض کا شکار افراد کے علاج کیلئے کوئی ہسپتال موجود نہیں تھا۔ میرے والد کا تعلق چونکہ پاکستان بحریہ سے تھا اس لئے خوش قسمتی سے مجھے فزیوتھراپی، پٹھوں کی گرمائش اور علاج معالجے کی سہولیات دستیاب تھیں، جبکہ غریب افراد کیلئے ہماری ڈسٹرکٹ میں آج بھی اس طرح کی کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

پولیو کا مرض عمر بھر لاحق رہتا ہے اور اس مرض کے شکار فرد کو پولیو کے مرض کی تکلیف کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ سماجی اعتبار سے پولیو یا دیگر معذوریوں کو بہت کم ہی سمجھا جاتا ہے۔

جب پولیو کے مرض کا شکار یا پیدائشی طور پر معذور بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو سکول میں اس کی تکالیف کا آغاز پہلے دن ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اسے معذور کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ایسے طالبعلموں کو ان کے اصل نام سے مخاطب کرنے کے بجائے انہیں لنگڑا”، “ٹنڈا” اور “لولا” کے القابات سے پکارا جاتا ہے۔ انہیں معاشرے میں ذلیل کیا جاتا ہے اور معذوری کے باعث ان سے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جاتا ہے۔

اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستانی معاشرہ جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں حساسیت پر مبنی رویہ تشکیل دینے میں ناکام رہا ہے۔ ریاست مکمل طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے انہیں صحت مند شہری نہیں بنا پائی۔ 1980 میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے معذور افراد کیلئے نوکریوں کے مواقع دینے کا آرڈینینس جاری کیا تھا۔ ضیاالحق کی اپنی بیٹی بھی معذور تھی، شاید اس لئے ضیاالحق نے ایسا قدم اٹھایا۔ لیکن حکومت نے جسمانی طور پر معذور افراد کے ملازمتوں کے کوٹے کے قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنے کیلئے کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔

مجھے یاد ہے کہ جامعہ کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعد میں نے معذور افراد کے کوٹے کیلئے مختص اسامیوں کو حاصل کرنے کیلئے مختلف اداروں میں درخواستیں دیں۔ میں نے یہ درخواستیں معذور افراد کی ری ہیبیلیٹیشن کی کونسل کے ذریعے دیں جو کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں کام کرتی تھی۔ لیکن معذور افراد کو یہ ادارہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے مکمل فٹ افراد کیلئے نوکریاں تلاش کرتا تھا۔

مجھے کبھی بھی کسی سرکاری ادارے سے میری ملازمت کی درخواست پر کوئی جواب نہیں ملا، حالانکہ ان کے پاسی کئی اسامیاں خالی تھیں۔ سرکاری اداروں میں یہ رجحان بھی پایا جاتا تھا تھا کہ معذور افراد کے کوٹے کیلئے مختص اسامیوں کو اند ہی اندر یا توتبادلوں کے ذریعے پر کر لیا جاتا تھا یا پھر محکمے کے ایسے افراد کو تعینات کر دیا جاتا تھا جو دوران ملازمت کسی معذوری کا شکار ہو جایا کرتے تھے تاکہ ٹیکس فری گاڑیاں خریدنے اور دیگر مراعات حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔

اس کے باعث ایک اصل اور حقدار معذور شخص کی حق تلفی ہو جایا کرتی تھی جو معذور افراد کے لئے مختص نوکریوں کے کوٹے کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ آج بھی معذوریوں کا شکار افراد معذور افراد کے کوٹے کی نوکریوں کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں، کیونکہ مرکز اور صوبوں میں معذور افراد کی مدد کیلئے قائم کی گئی کونسلز بالکل غیر مؤثر اور غیر فعال ہیں۔

پولیو کے مرض کا تذکرہ دوبارہ کرتے ہیں۔ اس مرض کے شکار افراد کو اکثر اپنے والدین کے غصے اور ناراضگی کا نشانہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اس مرض کی شدت اور پیچیدگی کے باعث اس کا شکار افراد اپنے والدین پر ایک بوجھ کی مانند تصور کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر جسمانی معذوری کے شکار بچوں کو ان کے والدین سکول بھیجنا بھی بند کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک روایتی تعلیم کا معذور بچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایسے بچوں کو اکثر والدین کسی اور مقام پر درزیوں کا یا اس سے ملتا جلتا کام سیکھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں۔ چونکہ ریاست پاکستان ابھی بھی عام افراد کو صحت اور تعلیم کی وہ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی جو کہ کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے اس صورتحال میں جسمانی طور پر معذور افراد کو زیادہ نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔

ایسے افراد کو مستقل بنیادوں پر واپس صحت مند زندگی گزارنے کے لئے علاج اور کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جوں جوں ان افراد کی عمر بڑھتی ہے، ان کی صحت اور جسم کی حالت پولیو کے مرض کے باعث مزید بگڑتی جاتی ہے۔ نسیں اور پٹھے پولیو کے بعد کے مضر اثرات سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں ہمہ وقت نگہداشت اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ اس بیماری کا علاج انتہائی مہنگا ہے اس لئے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد جیسے اہم اور جدید شہر میں بھی اس کے علاج معالجے کے مراکز ناپید ہیں۔

اسلام آباد میں گو پولیو کے علاج کا ایک مرکز موجود ہے لیکن وہاں پر تعینات عملہ محض تنخواہیں اور مراعات بٹورنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ معذور افراد کیلئے ڈیوٹی فری کاروں کی سہولت بھی کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ ان کاروں کو حاصل کرنے کیلئے جس قدر مشکل طریقہ منسٹری آف کامرس نے وضع کیا ہوا ہے اسے پورا کرنا کسی معذور فرد کے بس کی بات نہیں ہے۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے سرکاری مشینری کو اس قابل بنانا چاہیے کہ سرکار پولیو کے مرض کا شکار اور دیگر معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھ سکے۔ ریاست کی مشینری یا انتظامیہ کو معذور افراد کی مدد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اگر ریاست معاشرے میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقوق پورے نہیں کر سکتی تو کم از کم اسے معذور شہریوں کیلئے ایک فلاحی ریاست کا کام سرانجام دیتے ہوئے کم سے کم معذور افراد کے حقوق ضرور پورے کرنے چاہئیں۔

Tags: پاکستان میں پولیو کا شکار بچےپاکستان میں معذوری کا شکار لوگپولیوپولیو کو شکست دینے والا بچہعصمت اللہ نیازیمعذوروں کا نوکری میں کوٹہنیا دور
Previous Post

وہ مسائل جن کے حل کے بغیر ریاست کا چلنا ممکن ہی نہیں

Next Post

سندھ: رواں ہفتے کا احوال (20 اکتوبر تا 26 اکتوبر)

عصمت الله نیازی

عصمت الله نیازی

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Related Posts

عمران خان جیسے نیم حکیم کو سرجن سمجھ لینا جانثاروں کی حماقت ہے

عمران خان جیسے نیم حکیم کو سرجن سمجھ لینا جانثاروں کی حماقت ہے

by احسن رضا
جنوری 30, 2023
0

اس تحریر میں چار شخصیات کا ذکر متوقع ہے؛ ساحر لدھیانوی، سعادت حسن منٹو، رچرڈ گرے اور عمران خان۔ ان چاروں شخصیات...

اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان

اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان

by حمزہ ابراہیم
جنوری 28, 2023
0

جدید سائنس نے یہ بتایا ہے کہ چیزیں مرکبات (Molecules) سے مل کر بنی ہیں۔ ان کی صفات مرکبات کی ترتیب اور...

Load More
Next Post
سندھ: رواں ہفتے کا احوال (8 ستمبر تا 14 ستمبر)

سندھ: رواں ہفتے کا احوال (20 اکتوبر تا 26 اکتوبر)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 31, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In