کیا یہ حق و باطل کی جنگ ہے؟

کیا یہ حق و باطل کی جنگ ہے؟
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اسی لئے اقتدار کیلئے بھائیوں نے بھائیوں کا اور باپ بیٹوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا اور ہر طرح کی بے اصولی کی لیکن اس معاملے میں سنگدلی کی انتہا یہ ہوتی ہے جب کوئی فریق اقتدار کے لئے ”مذہب“ کا سہارا لیتا ہے اور خود کو مذہب کا پاسبان، عقل کل اور خدائی نجات دہندہ قرار دے کر دوسروں کو کافر یا کم تر مسلمان سمجھتا ہے۔ یا ان مذہی اصطلاحات کا سہارا لیتا ہے جو بہت قابل احترام تو ہوتی ہیں لیکن وہ انہیں محض دنیاوی اقتدار کے لئے مذہبی بلیک میلنگ یا کنفیوژن پھیلانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

جیسا کہ آج کل پاکستان میں عمران خان نے ریاست مدینہ کے مقدس نام کو اپنی گرتی ہوئی حکومت کو سہارا دینے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے جلسے کو کامیاب کرنے لئے اسے امر بالمعروف اور اپوزشن کو ”بدی“ کا سمبل قرار دے رہے ہیں۔

اس سے پہلے ہم ایسا ہی مظاہرہ بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف بھی دیکھ چکے ہیں۔ جب الیکشن میں دھاندلی کے نام پر شروع ہونے والا احتجاج نظام مصطفیٰ کی تحریک میں تبدیل کر دیا گیا۔ جو بعد میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کی نذر ہو گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت مذہب کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال پی این اے کی اپوزیشن کر رہی تھی اور اس مرتبہ اس مذہبی بلیک میلنگ کا کھیل حکومت وقت کھیل رہی ہے جو اپنے چار سالہ دور میں زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اس نے عوام سے جتنے وعدے کئے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہو سکا۔ خاص طور پر کرپشن کا بیانہ اس لحاظ سے بری طرح پٹ گیا ہے کہ عمرانی دور حکومت میں بقول ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کرپشن میں 24 درجے اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ 160 روپے کلو میں دستیاب ہونے والا گھی پانچ سو روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

یہی حال ادویات اور دیگر اشیائے ضرورت کا ہے جس میں 500 سے 600 گنا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ کرنے اور اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے بعد معیشت کی ترقی کی خوشخبریاں دی جا رہی ہیں جو کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔

پاکستان عملاً انارکی اور دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عوام کو ایک کروڑ گھر اور پچاس لاکھ نوکریاں دینے کا لارا لگا کر ان سے کرائے کی چھت اور روزگار چھینا جا رہا ہے۔ ملک میں بیروزگاری اور امن وامان کا مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں عمران خان خود کو نیکی اور اپوزیشن کو بدی کا سمبل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جو مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔

ساڑھے تین سال تک اپنے محسنوں کے بل بوتے پر اپنی جماعت اور حلیفوں کو ساتھ رکھنے والا عمران خان محسن کشی کے بعد جب اپنے ساتھیوں کی حمایت سے محروم ہوا ہے تو اس نے ڈوبنے سے بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے ریاست مدینہ اور امر بالمعروف کا راگ زیادہ زور سے الاپنا شروع کر دیا ہے۔ جو ہارے ہوئے جواری کے واویلا سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب وہ خود کو عقل کل اور نیکی کا دیوتا قرار دیتا ہے تو پھر لازما ً اس کے کردار کو دیکھا جاتا ہے جو ”ریاست مدینہ“ کے کسی اصول پر پورا نہیں اترتا بلکہ اُن عظیم ہستیوں کے ذاتی اور اجتماعی کردار کی توہین کرتا دکھائی دیتا ہے۔

جھوٹ، دشنام طرازی اور گالی گلوچ کیا ریاستِ مدینہ کے حکمرانوں میں پائی جاتی تھی؟ عمران خان اپنے جس یوٹرن پر فخر کرتے ہیں وہ سیدھے سادے الفاظ میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین پر 35 کلو ہیروئن کے جھوٹے کیس بنانے اور اپنے جھوٹے ایم این اے فیصل واوڈا کو جھوٹ پر سزا دینے کی بجائے سینیٹرشپ کا انعام دینے والا ریاست مدینہ کا دعویدار ہو سکتا ہے؟

وہ شخص جس کی کابینہ میں چینی، آٹا، گیس، بجلی اور ادویات چور دائیں بائیں بیٹھے ہوں اور کچھ اربوں روپے لوٹ کر بھاگ چُکے ہیں۔ وہ خود کو نیکی کا سمبل قرار دے کر اپنے جلسے کو امر بالمعروف قرار دے سکتا ھے؟

جس کی حکومت کا قیام دھاندلی کے ذریعے ہوا ہو اور جس کے لئے ہر جماعت سے لوٹے بھرتی کئے گئے ہوں۔ کیا وہ کسی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا سکتا ہے؟ اگر وہ اپنے منحرف ارکان کو جو اس کی نا اہلی اور متکبرانہ رویے کے شاکی ہیں۔ یہ کہے کہ مجھے چھوڑنے کے بعد لوگ آپ کے بچوں سے شادیاں نہیں کریں گے، اسے دماغ کے خلل کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

وہ جو کبھی کہتا تھا کہ اگر کسی نے ”گو عمران گو“ کہا تو وہ اسی دن حکومت چھوڑ دے گا۔ اب اپنی جماعت کے ارکان کی مخالفت کے باوجود حکومت سے چمٹا ہوا ہے تو وہ با اصول کہلائے گا یا بے اصول؟ عمران صاحب اقتدار کی اس جنگ کو حق و باطل اور کفر واسلام کی جنگ قرار دینے سے گریز کریں کیونکہ یہ مذہبی بلیک میلنگ اور توہین کے زمرے میں آتا ہے۔

ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔