آئین اور قانون کی سمت پیش قدمی

آئین اور قانون کی سمت پیش قدمی
اگر کوئی شخص ہوش وخرد سے مکمل طور پر بیگانہ اور تاریخ سے بے خبر نہیں تو پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار سے بھی واقفیت رکھتا ہوگا جس کے سبب اس ملک کی بد بختیوں میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔

لیکن اگر یہی اسٹیبلشمنٹ بدلتے ہوئے زمانے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے نئے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے روایتی کردار میں جوھری تبدیلیوں کی سمت پیش قدمی کرے تو دانائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم جیسے بد لحاظ صحافی بھی ماضی پر طعنہ زنی کی بجائے خوش کن امکان اور امید کا دامن تھام لیں تاکہ "نئے سفر " کا آغاز الجھاؤ اور اشتعال کی بجائے اعتماد اور اعتبار حاصل کرے۔

کہنے دیجئے کہ یہی اسٹیبلشمنٹ تھی جس کے دروبام سے ماضی قریب میں ثاقب نثار، دھرنے، ڈان لیکس، آر ٹی ایس، نیب اور عمران خان اترتے رہے۔ لیکن اب یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو ایک باوقار انداز میں آئین اور قانون کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور جس نے پارلیمان کے اندر اکثریت کھو دینے والے وزیراعظم کا غیر آئینی ساتھ دینے سے دوٹوک اور واضح طور پر انکار کرتے ہوئے آئین وقانون کا راستہ اپنایا۔

ایک خوشگوار اور قدرے جمہوری منظر نامہ سامنے ہے کہ اب یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے ق لیگ باپ اور جی ڈی اے جیسی جماعتوں کو اپنی نرسری سے نکال کر سیاسی میدان اور "فیصلوں کی آزادی" کی طرف دھکیلا۔

یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے گیٹ نمبر چار کی فسوں گری اور شیخ رشید ٹائپ سیاسی سرکس سجانے کو الوداعی ہاتھ ہلاتے ہوئے خود کو آئین وقانون کے سائے میں ایک باوقار مقام پر لے گیا۔ کبھی عسکری قیادت کی سبکدوشی سے پہلے "رک جانے کی التجائیں" شکریہ اور ملک بچاو جیسے پینا فلیکسز اور پوسٹروں سے شاہراہیں اچانک بھر جاتیں۔ لیکن اب میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ادارے کا ترجمان ذمہ دارانہ سنجیدگی کے ساتھ بتاتا ہے کہ اس ملک میں اب کوئی مارشل لا نہیں لگے گا بلکہ یہاں تک کھل کر بتا دیتا ہے کہ کوئی ایکسٹینشن زیر غور نہیں اور اعلیٰ عہدے سے ریٹائرمنٹ بھی اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوگی۔

یہی تبدیلی بلکہ ذمہ دارانہ رویہ ہی وہ حوصلہ افزا پیشرفت ہے جس نے آئین وقانون کی سربلندی کے امکان کو توانا کیا۔ تاہم ایک حصار ٹوٹنے اور قدرے اچانک اس تبدیلی سے مثبت اور منفی عوامل نے بھی پیہم جنم لیا (جو ایک فطری عمل ہے) مثلاً عدم اعتماد کے ایک جمہوری اور آئینی عمل کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے والے عمران خان ناصرف حساس اداروں بلکہ اعلیٰ عدلیہ پر بھی مسلسل الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔

جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خان صاب کی سیاست اول روز سے ہی انہی منطقوں کی ناز برداریوں میں پروان چڑہی حتیٰ کہ اسے ( عمران خان) کو ایک متنازعہ انتخاب کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچایا گیا۔ وہ آر ٹی ایس الیکشن ہو، وہ ثاقب نثار کی فراہمی ہو، وہ کسی اشارے پر ترین کے جہازوں کی اڑان اور ممبران اسمبلی کو گھیرنا ہو یا وہ چونتیس سے چونسٹھ کو شکست دے کر چیئرمین سینٹ منتخب کروانا ہو۔ نیب کے کمالات اور میڈیا کی نوازشات الگ سے تھیں لیکن 9 اپریل کی رات خان صاحب کی سیاست اور زندگی ایک اور بلکہ اجنبی موڑ مڑ گئی۔ اب اسے اپنے ہی بازووں پر سیاست کرنی تھی کسی "مدد " کے بغیر اور وہ بھی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے نازونعم کی عادی پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے نئے حقائق چونکا دینے والے بھی تھے اور ناقابل قبول بھی۔ اس لئے اپنے طاقتور "مورچوں" یعنی عمران خان کی آتش بیانی اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا سے فوری "گولہ باری " شروع ہوئی جو تاحال جاری ہے اور جس کے اصل ہدف عدلیہ اور عسکری منطقے ہی ہیں۔

تاہم یہ غبار ایک مقررہ وقت کے بعد ریاستی اقدامات یا فطری عوامل کی وجہ سے خودبخود بیٹھ بھی جائے گا اور اختتام پذیر بھی ہوگا کیونکہ گردوپیش کے زمینی حقائق اس جذباتی فضا سے یکسر مختلف ہیں جنہیں محض ایک مکارانہ انداز سیاست سے ترتیب دیا گیا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی منطقوں سے فاصلے اور آئین وقانون کی بالادستی تسلیم کرنے سے ایک خوشگوار جمہوری اور آئینی بالادستی کے نظام کی طرف پہلا قدم اور حد درجہ مثبت انڈی کیشن ہے۔ جسے سمجھنے اور تقویت فراہم کرنے کے لئے بعض اقدامات کو دانائی کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے۔

مثلاً ضدی اور انا پرست سابق وزیراعظم کے آمرانہ طرز عمل کا راستہ روکنے اور آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے  والی اعلیٰ عدلیہ ہی تھی۔ جبکہ اب یہ بات بھی راز نہیں رہی کہ یہی عسکری ادارہ ہی تھا جس نے عمران خان کے کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت تو درکنار بلکہ آئین وقانون کی پاسداری اور تحفظ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا جس کے سبب عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ممکن ہوئی اور وزیراعظم کو پارلیمان کے ذریعے آئینی طریقے سے  برطرف کیا گیا۔

ہم یاد کرتے ہیں کہ ابھی چند سال پہلے نواز شریف اور مریم نواز کے ناموں کے گرد سرخ لکیر کھینچنے کا نعرہ گونجتا رہا۔ ثاقب نثار سے نیب تک ایک تماشا لگا رہا۔ قید وبند سے میڈیا ٹرائل تک جبر ہی جبر تھا۔ ایک احمق جاہلیت کا راج اور سچائی پر خوفناک قدغنیں تھیں لیکن اس سے ملکی تضحیک، معیشت کی تباہی، اداروں کی توہین، خوفناک مہنگائی، بدترین کرپشن اور تہذیبی بربادی کے علاوہ کون سا ثمر ہاتھ آیا؟ اگر زمانے کے ارتقائی عمل اور بدلتے ہوئے منظر نامے کے حقائق کو ایک دانش اور بصیرت کے ساتھ کے ساتھ سمجھنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے اور مستقبل کا بیانیہ اسی دانائی سے ترتیب بھی پانے لگا ہے۔ تو ہر ذی شعور اور ذمہ دار شہری پر اس کا خراج بھی فرض ہے اور مدد بھی۔ تاہم کسی مجنوں مزاج گروہ اور حقائق کے ادراک سے ناشناسا ہجوم کی رائے کی اہمیت کیا؟ تاریخ ہمیشہ دانش اور دانائی کا ساتھ دیتی ہے اور اسی سے ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔