انا کے خول سے نکلیں دنیا خوبصورت ہے

انا کے خول سے نکلیں دنیا خوبصورت ہے
پورا سال دیندار لوگ رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں کہ کب رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ آئے گا اور وہ عبادت کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے کیونکہ انہیں آگاہی ہوتی ہے کہ پورا سال باقی دنیاوی کاموں میں گزار کر یہی ایک مہینہ جو عبادت کے لئے مخصوص ہوتا ہے جس میں اپنے اللہ کو راضی کریں۔

وہ اس تگ ودو میں ہوتے ہیں کہ اللہ کے سامنے جتنا زیادہ سربسجود ہوں تو فلاح ملے گی۔ اسی طرح عید کے لئے بچے سارا سال تیاری کرتے ہیں کیونکہ انہیں عید پر نئے کپڑے، نئے جوتے اور رشتہ داروں سے عیدی کی مد میں کچھ نہ کچھ رقم مل جاتی ہے۔ وہ الگ بات کہ والدین بچوں کو عیدی خرچ نہ کرنے کا مشورہ ہر دور سے دیتے آ رہے ہیں، مگر وہ بچے ہی کیا جو بات سمجھیں یا مانیں۔

جو شریف ہوتے ہیں اُن کی عیدی اکثر مائیں عید کے بعد ہڑپ کر دیتی ہیں اور پھر سارا سال بچے اسی عیدی کو یاد کرکے گزارتے ہیں۔ اسی طرح جو سیزن کے کاروبار والے ہوتے ہیں، وہ انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب رمضان کا مہینہ آئے اور کیسے وہ چھریاں تیز کریں۔

یہ سوچ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور ہر سال مہنگائی جو حکومت نہیں بڑھاتی، وہ عام دکاندار بڑھاتا ہے۔ شہروں میں تو ایک اصول چلتا ہے کہ تھوڑی بہت حکومت کی بھی چلتی ہے، گاؤں میں عام زمیندار سے پانچ روپے کلو سبزی لینے والا جب سو روپے میں فروخت کرے گا تو یہاں ذمہ دار حکومت کو گرداننا زیادتی ہی ہے۔

جو بھی ہو جیسے بھی ہو رمضان اور عید رکتی نہیں گزر ہی جاتی ہے، مگر ہر رمضان اور ہر ایک عید ایک نقش چھوڑ کر جاتی ہے۔ عید گاہ میں نماز پڑھتے ہوئے جب مولوی صاحب پورے سال کے انتقال فرمانے والوں کی یاد میں دعا کرنے کا کہتا ہے تو سوچ پریشان ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ پچھلی عید میں اسی عید گاہ میں انہی صفوں میں کسی اور کے لئے دعا کر رہے تھے، آج وہی ہاتھ مٹی ہو گئے ہیں اور دوسرے ہاتھ اُس کی دعا کے لئے اٹھے ہیں۔

ذرا بھر کو جھرجھری سی آ جاتی ہے کہ سب کی یہی منزل ہے، سب نے اسی قبرستان کو آباد کرنا ہے جہاں ہمارے آبائو اجداد گئے ہیں، مگر جھوٹی اناؤں کے خول سے باہر نہیں آتے۔ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں بھی ہمیں اللہ ہدایت نہیں دیتا کہ اپنوں سے جو دوریاں ہیں وہ مٹا لیں۔ جو دشمنیاں اوروں سے پالی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو کدورتیں دلوں میں رکھی ہیں وہ ختم کردیں۔

رمضان برکت رحمت مغفرت کا مہینہ بھی لوگوں کے دلوں کے قفل نہیں کھولتا، پھر عید کی خوشی کے موقع پر بھی انائیں نہیں مرتی تو سوچ کے دروازوں پر دستک ہوتی ہے کہ کیا رمضان المبارک کے روزے اور ہماری عید کو اللہ تعالی نے قبولیت بخشی ہے کہ نہیں؟ کیا پتہ کل کو یہ رمضان اور عید نصیب ہی نہ ہو اور ہمارے لئے صرف ہاتھ ہی اٹھیں جو آج دعا کے لئے ہم نے اٹھائے ہیں۔ اناؤں کے خول سے نکل کر دیکھیں تو زندگی بڑی خوبصورت ہے۔ عید کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے کہ عید کی وہ خوشیاں نہیں رہیں، آپ کو احساس ہوگا کہ جب اپنے رشتہ دار ساتھ ہوں اور دلوں میں نفرتوں کے ٹیلے نہ ہوں تو عید تو کیا دنیا بھی خوبصورت لگتی ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔