"سکھ برادری نہ پاکستان میں محفوظ ہے نہ ہندوستان میں، تو آخر ہم جائیں کہاں؟"

اتوار کے روز صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور کے علاقے تھانہ سربند کی حدود بٹہ خیل بازار میں نامعلوم افراد کی فائرنگ دو سکھ تاجر ہلاک ہوئے جن کی ذمہ داری داعش خراسان نامی تنظیم نے قبول کی۔

اطلاعات کے مطابق پشاور میں قتل ہونے والے دونوں سکھ تاجروں قبائلی اضلاع میں امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر سابقہ فاٹا میں اپنے آبائی علاقے باڑہ سے پشاور ہجرت کی تھی۔

داعش خراسان کے اس حملے میں 42 برس کے کلجیت سنگھ اور 38 سالہ رنجیت سنگھ ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان دونوں افراد کا تعلق ڈبگری گارڈن کے علاقے سے تھا اور مقتولین کی بٹہ خیل بازار میں مصالحے کی دکانیں تھیں۔

سکھ برادری کے مقامی تاجر سنتوش سنگھ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ سکھ برادری ہر گزرتے دن کے ساتھ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے کیونکہ سکھ برادری کے لوگ قتل ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ موقع پر موجود عینی شاہدین نے بتایا کہ جب سکھ تاجروں کو قتل کیا گیا تو ٹارگٹ کلرز لوگوں سے پوچھتے رہے کہ یہاں کوئی اور سکھ تو موجود نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں دیگر سکھ دکاندار بھی موجود تھے لیکن انہوں نے دیگر دکانوں میں پنالی۔

سکھ برادری نے کل پشاور میں احتجاج کیا اور آج پشاور میں ایک پریس کانفرنس بھی کی جس میں سکھ تاجروں کے قاتلوں کو پکڑنے اور سکھ برادری کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

سنتوش کہتے ہیں کہ دونوں سکھ تاجروں کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں تھی اور یہ دہشتگردی کا واقع ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے اور اگر تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ہم اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

سکھوں کی فلاحی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں1200 کے لگ بھگ سکھ گھرانے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں میں 22 کے لگ بھگ سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق پشاور میں قتل ہونے والے سکھ تاجروں کا کسی فلاحی یا سکھوں کی مقامی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور دونوں صرف تجارت سے ہی وابستہ تھے۔ ماضی میں وقفے وقفے سے سکھ برادری کو نشانہ بنایا جاتا رہا اور امن و امان کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر قبائلی اضلاع سے سکھ پشاور اور کچھ ملک سے باہر چلے گئے۔

پشاور میں دہشتگردی کے امور کے ماہر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ سکھ تاجروں کے قتل کی زمہ داری کالعدم داعش خراسان نے قبول کی ہے اور پشاور میں کوچہ رسالدار سمیت دیگر حملوں سے داعش نے ثابت کیا کہ ان کی پشاور اور ملک کے دیگر اضلاع میں جڑیں موجود ہے جبکہ پولیس حکام سمیت دیگر ریاستی ادارے اس بات کو مانتے بھی ہیں کہ داعش خیبر پختونخوا اور خصوصی طور پر پشاور میں موجود ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہورہے ہیں لیکن داعش ایک نئی طاقتور تنظیم کے طور پر پشاور میں ابھر رہی ہے اور اگر ٹی ٹی پی نے سیز فائر کا اعلان کیا اور ریاست پاکستان سے مزاکرات کررہے ہیں، لیکن داعش سے مزاکرات کون کریگا؟ کیونکہ ان کا کوئی سربراہ یا واضح انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں جس سے رابط کرکے مزاکرات کئے جائے۔ لحاظ علی نے مزید کہا یہاں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہینگے کیونکہ داعش کا ایک نیٹ ورک یہاں موجود ہے۔

پشاور میں مقیم ایک سکھ تاجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جس دن سکھ تاجروں کو قتل کیا گیا ہے اس دن سے میں ایک سکتے میں ہے اور میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سکھوں کو کیوں قتل کیا جارہا ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں نہ پاکستان میں ہمارا مستقبل اور زندگی محفوظ ہے اور نہ ہندوستان میں تو ہم کہاں جائیں؟ وہ کہتے ہیں جس دن سے یہ واقع ہوا ہے میں اپنی دکان پر نہیں گیا، اب تو اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کوئی قتل نہ کردے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔