شیریں ابو عاقلہ جو اپنے فرائض ادا کرتے کرتے امر ہوگئیں

شیریں ابو عاقلہ جو اپنے فرائض ادا کرتے کرتے امر ہوگئیں
یروشلم میں 3 جنوری 1971 کو ایک ایسے انسان کا جنم ہوا جو مرتے دم تک نہ بدلا۔ اس نے جو چاہا وہ کیا اور آخری سانس تک اسی عمل کی پاسداری کی۔ ایسی توانا آواز کو 11 مئی 2022ء کو ہمیشہ کیلئے چپ کرا دیا گیا۔

فلسطین کے علاقے ویسٹ بینک میں پریس کی بلٹ پروف جیکٹ، حفاظتی ہیملٹ کے عین ایک انچ نیچے گولی سے رنگین شیریں ابو عاقلہ کے جسم کو گرتے ہوئے کیمروں کی آنکھ نے دنیا بھر کو دکھایا۔

یہ فلسطینی امریکی نژاد، مسیحی خاندان کی رکن، جورڈن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور یرموک یونیورسٹی میں پرنٹ میڈیا میں بیچلر، 25 سالوں سے الجزیرہ عربی نشریات کے لئے فلسطین کے زمینی حقائق کو کرہِ ارض پر بسنے والے ہر انسان کو دکھانے والی، فلسطین بالعموم اور مشرقِ وسطی بالخصوص کی بلند آواز، کروڑوں لوگوں کی امید، لاکھوں کے لئے مثال، ہزاروں کے لئے رہبر اکاون سالہ شیریں ابو عاقلہ تھیں جو اپنی فرائض کو ادا کرتے کرتے امر ہو گئیں۔

اسرائیلی فوج کا جب شیریں ابو عاقلہ کو مار کر بھی دل نہ بھرا تو اس کی میت کو کندھوں پر رکھ کر قبرستان جانے والوں پر لاٹھی چارج کرکے ظلم کی انتہا کی گئی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ شیریں ابو عاقلہ کی موت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے والے اُس کی میت کی بے حرمتی کرکے اپنی فیک نیوز کو سچ کی دائرے میں ڈال رہے تھے۔

فلسطینی سرزمین پر کیمرے سے لیس، بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے پینتیس سالہ برطانوی صحافی جمیز ملر اسرائیلی ٹینک سے پھٹنے والی آخری خول کی ویڈیو بناتے ہوئے سنائپر کی زد میں آئے۔

رائٹرز کے 23 سالہ فلسطینی کیمرا مین صحافی فیدل شانا 2008ء میں اسرائیلی بربریت کو کور کرتے ہوئے ٹینک کی بمباری کا نشانہ بنے۔ اٹلی شہری بین الاقوامی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے لیے کام کرنے والے فوٹو جرنلسٹ سیمون کیملی 2014ء میں حماس اور اسرائیل کی جنگ کو کور کرتے ہوئے بم دھماکے میں ہلاک کئے گئے۔

2018ء میں غزہ اور اسرائیل کے بارڈر پر جاری مظاہروں کو کور کرتے ہوئے کیمرا مین، فوٹو جرنلسٹ یاسر مرتضیٰ کو بلٹ پروف جیکٹ اور حفاظتی ہیلمٹ محفوظ نہ رکھ پائے۔ یوں کہا جائے کہ یاسر مرتضیٰ ہوں یا سیمون کیملی دونوں شیریں کے لیے ہمت اور طاقت تھے۔

البتہ شیریں ابو عاقلہ کی زندگی فلسطینوں کے حوصلہ تھی۔ شیریں پر لکھنے والی شیریں سالتی کہتی ہیں کہ میری امی نے شیریں سے متاثر ہوکر میرا نام شیریں رکھا اور مجھے ان جیسا بننے کا حوصلہ دیا۔ آج میں شیریں کی شہادت پر لکھ رہی ہوں۔ شیریں کی میراث ماؤں کے نئے بچوں کے سنگ ہیں۔

فلسطین کی گلیوں میں نیا لٹریچر پیدا ہو رہا ہے۔ راتوں رات شیریں کے لیے لکھا اور بولا جا رہا ہے تو اب عملاً نئے شیریں بننے والوں کا حساب خود لگا لیا جائے۔ فلسطین میں بسنے والے مسلمان، جنگی جنون میں مبتلا اسرائیلی فوج کو کیمرے سے فلمبند کرنے والے شیریں کی طرح حریت پسند صحافی جو صحافت اور مظلوم فلسطینوں کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔