علی وزیر سدھر جائو!

علی وزیر سدھر جائو!
جنگ زدہ رہ کر بھی جنگ سے نفرت کا درس دینے والے رکن قانون ساز اسمبلی علی وزیر کو سدھرنے کے مشورے ایسے دیے جا رہے ہیں جیسے اس نے ہی جنگ چھیڑی ہو، ٹارگٹ کلنگ کا ماسٹر مائنڈ یا مذہبی انتہا پسند جماعت کا سرکردہ رہنما ہو۔

جس علی وزیر سے معافی مانگنے کے احکامات طلب کئے جا رہے ہیں، اس نے اپنے خاندان کی میتوں کو کندھا دے کر قبرستان میں دفن کیا ہے اور جس نے شہید کئے اُن سے مذاکرات کے لئے کابل نزدیک اور علی وزیر کی عارضی رہائشگاہ کراچی کی سینٹرل جیل کوسوں دور ہے۔

علی وزیر قانون ساز ضرور ہے لیکن قانون سازی کیلئے کراچی کی سینٹرل جیل میں اذیتیں برداشت کر رہا ہے۔ علی وزیرستان کا نمائندہ ضرور ہے لیکن امن پسندی اور انسانی حقوق پر اپنے موقف کی سزا جیل میں گُزار رہا ہے۔

علی وزیر نے اپنے بھائی گنوائے ہیں۔ چھ بچوں، اپنی ماں اور سائرہ وزیر سے دوری برداشت کر رہا ہے کیونکہ وہ جنگ کا دشمن ہے۔ حکومت جن سے مذاکرات کرتی ہے، ان کے ہاتھوں ہی اس کا خاندان قربان ہوا ہے۔ اُس کی کمٹمنٹ تین سال کے عقوبت خانہ سے بہت زیادہ ہے۔

وہ اُن سے پیار کرتا ہے جنہوں نے علی وزیر کو گنوایا نہیں ہے۔ جتنا کہا جائے کہ محسن داوڑ افغانستان کا بیانیہ پھیلا رہا ہے۔ منظور پشتین قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور علی وزیر افغان انٹلی جنس کا کارندہ لیکن وزیرستان نہ مانے تو کون منوائے۔

وزیرستان کا ٹرک ڈرائیور بلوچستان میں روزگار کرتا ہے۔ گھر ٹانک ڈیرہ اسمائیل خان میں ہے یا سہراب گوٹھ کراچی میں۔ ان کے لئے وزیرستان تنگ ہے لیکن وہ جس علی وزیر کو جانتے ہیں وہ رہنما ہے۔ دلیر پشتانہ ہے۔

اتفاقاً ملنے پر وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور نے عرض کیا کہ جنگ کے بعد مرد اور خواتین کو ہر چیک پوسٹ پر بس اور گاڑی سے اتار کر تلاشی اور انٹری دینی ہوتی تھی، اب منظور پشتین نے یہ پالیساں ختم کی ہیں۔

جب تک وزیرستان کے پہاڑ سے چرواہا آواز نہیں دے گا کہ علی سدھر جاؤ، یقین کریں وہ ایسے اندھے نظام سے روشنیاں بکھیرنے کی کوشش میں لگا رہے گا۔ وزیرستان مشکلات میں علی وزیر کو پکارتا ہے۔ جس علی وزیر کی آواز گونجنے لگے گی تب پنڈال سجنے کے بعد تالیاں آر پیار، امید آمنے سامنے، یقین اور جذبہ دلوں کو مستحکم کرتا جائے گا۔

آپ علی وزیر کو گنوا سکتے ہیں وزیرستان نہیں۔ آپ علی کو معافی مانگنے پر مجبور کر سکتے ہیں علی کا ضمیر نہیں خرید سکتے۔ میں نے نہ علی وزیر دیکھا اور نہ ہی وزیرستان۔ میں نے جذبے دیکھے ہیں۔ حال ہی میں ٹانک میں رہنے والے اسماعیل وزیر کا پیار دیکھا ہے جو دل سے نکل کر چشم روشن کرے۔ اورہ ہاں یہ کہتے کہتے میں یہ بھول ہی گیا کہ علی وزیر تب سُدھرے گا جب آپ سُدھریں گے۔

افکار علوی کا ایک شعر آپ کے نام

ہم ایسے لوگ گنواؤ نہ اے زمین والو

ہم ایسے لوگ کہاں بار بار آتے ہیں

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔