پرویز مشرف پاکستان آ سکتے ہیں لیکن ان کی عزت لوٹنے کا کوئی امکان نہیں

پرویز مشرف پاکستان آ سکتے ہیں لیکن ان کی عزت لوٹنے کا کوئی امکان نہیں
پرویز مشرف پاکستان کی ایک تاریخ ہیں جو آزادی کے بعد کا تقریباً ساتواں حصہ ہے جس کا آغاز نواز شریف ان کی بحثیت چیف آف آرمی سٹاف سے کرتے ہیں اور پھر ان کے درمیان اختلافات سے ایک نئے باب کی شروعات ہوتی ہے۔ اس کے بعد مشرف اپنی تقدیر خود لکھنے کا آغاز کرتے ہوئے۔ ایک آئینی عہدے کی طاقت کے استعمال سے پرموٹ ہو کر چیف ایگزیکٹو بن جاتے ہیں۔

اس کے بعد مشرف اقتدار کے اعلیٰ صدر پاکستان کے عہدے پر بھی پہنچ گئے۔ دس سال وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ جس میں منتخب وزیراعظم کی سبکدوشی، قید، ملک بدری اور آخر میں این آر او بھی ہوا، بڑے دبنگ انداز میں مکے لہرا کر لکھتے رہے۔ بالاخر وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے کرتے عدلیہ پر وار کرنے سے اپنا توازن کھو بیٹھے۔

اسی دوران وجود پانے والا میثاق جمہوریت اب توانا ہو چکا تھا، جس نے مناسب وقت پا کراپنا وار کردیا اور اس طرح ایک دفعہ پھر سے جمہوری دور کا آغاز ہوا۔ پرویز مشرف کی طاقت کے زور پر مرتب کردہ تاریخ کے کئی ابواب کی جمہوری حکومتی ادوار میں غیر متوازی آئینی اصلاحات ریورس ہوئیں اور ایوان عدل نے بھی کچھ پیمانے مرتب کئے اور یوں سابقہ صدر پرویز مشرف اقتدار کے دور سے گزرتے مجرم کے کردار تک پہنچ گئے اور پھر اپنی مرضی سے ملک سے چلے گئے۔

ان کو سزا دینے والی عدالت بھی اپنی ہی ہم مرتبہ عدالت سے تکنیکی بنیادوں پر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ مگر مشرف پھر بھی اپنے پاکستان واپسی کے سفر کو محفوظ نہ سمجھتے ہوئے ملک سے باہر ہی رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کو سزا دینے والی عدالت تو اپنا وجود فیصلے سمیت کھو بیٹھتی ہے مگر ان فیصلوں کے خلاف اپیل اب بھی مناسب وقت کے انتظار میں عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہے۔

اس وقت ان کی واپسی بارے سیاسی رہنماؤں کے ہمدردانہ بیانات دانشمندانہ سوچ کے عکاس ہیں۔ بعض لوگ ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ بھی ایک جمہوری ریاست کے اندر اظہار رائے کے حق کا استعمال ہے۔ سیاستدانوں کو کبھی بھی کشمکش والا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور ان کا ہر عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے۔

پرویز مشرف کو پاکستان آنے میں پہلے بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی، بلکہ وہ اپنی ماں کی تیمارداری کے لئے گئے تھے اور پھر صحت کی خرابی کے باعث انہوں نے واپسی کا ارادہ ملتوی کردیا تھا۔ عدالتوں میں ان کے مقدمات اب بھی زیر التوا ہیں اور عدالتوں کی طرف سے ان کو پیش ہوکر اپنا موقف دینے کے لئے بلایا بھی جاتا رہا ہے۔

فوج کی طرف سے ان کو واپسی کے لئے سہولیات مہیا کرنے کی پیشکش بھی ہوئی مگر اس میں بہرحال وزیر دفاع پہل کرچکے ہیں جس پر ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اس کی بازگشت سینٹ تک بھی پہنچ چکی ہے۔ ایوان بالا کے ممبران کا اپنا اپنا ذوق ہے مگر وطن واپسی تو بحثیت شہری ان کا بنیادی حق ہے۔

ان کے مقدمات اور ان کی کارروائی عدالتی معاملہ ہے جس کا فیصلہ بہرحال عدلیہ کا صوابدیدی اختیار ہے۔ حکومت کے پاس انتظامی امور ہوتے ہیں اور اگر عدالت کی طرف سے معلومات کے حصول یا کسی حکم کی تعمیل کے لئے ہدایات ملیں تو ان پر من وعن عمل کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔

کسی بھی جمہوری ریاست کے اندر اس کا آئین ہی سپریم ہوتا ہے اور آئین ہی ہر شہری کو اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ زندگی، صحت اور آزادی انسان کی بنیادی حقوق ہیں جن کی پاسداری بھی حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان کی واپسی میں کوئی قانونی قدغن ہے تو اس کے لئے بھی ان کی فیملی عدالت سے رجوع کرسکتی ہے ۔

انصاف کا یہ تقاضہ ہے کہ کسی بھی شہری کے رجوع کرنے پر عدالتیں اس کے حالات اور قانونی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر اپنی ہدایات جاری کرے جس پر اگر کسی متاثرہ فریق کو اعتراض ہو تو اس کا بھی لائحہ عمل قانون میں موجود ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ محض جزبات کی بنیاد پر آئین ، انصاف اور فرائض کو پس پشت ڈالتے ہوئے کوئی بھی تبصرہ نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی فضول اور بے فائدہ بحث کا آغاز یا اسے طول ملے۔ صحت انسان کی پہلی ضرورت اور ترجیح ہے اور اس پہلو کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

میرے خیال میں اس طرح کے موضوعات پر سیاسی جماعتوں کے سربراہان، حکومتی عہدیداران، وزرا اور ممبران اسمبلی کو ذاتی حیثیت میں بیان دینے یا تبصرہ کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے یا پھر انتہائی محتاط الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ حقائق کی موجودگی اپنی چگہ مگر پارلیمان کی توقیر کو بہرصورت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تاکہ بحث سے ابھرنے والا تاثر منفی نہ ہو اور نہ ہی اس سے سیاسی کشیدگی  جنم لے۔ خاص کر حکومتی عہدیداران اور وزرا کو تو بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے اور ہمیشہ آئین وقانون اور حکومتی پالیسی کو سامنے رکھ کر بولنا چاہیے اور اگر کسی امر پر فیصلہ مقصود ہو تو وزرا کو ذاتی حیثیت میں کرنے کی بجائے کیبنٹ سے کروانا چاہیے تاکہ اس سے متفقہ قومی سوچ کا تاثر ملے۔

یہ تدبیر اور مشق بہت ساری سیاسی مشکلات سے بچاؤ کا بہتریں ذریعہ ہے۔ اس سے سیاسی ماحول میں پختگی، سنجیدگی اور دانشمندی سے فیصلے کرنے کا ماحول بنتا ہے اور ملکی سیاست بارے عالمی سطح پر اچھا تاثر ابھرتا ہے جس کے  ریاست کے بین الاقوامی تعلقات پر مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جیسے سیاستدانوں اور عوامی قائدین کی طرف سے ہر آئے روز غداری اور غلامی کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی مدبرانہ فعل نہیں اور اس کے سیاست پر بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ہمارے ملکی سطح کے فیصلوں میں طاقت کے استعمال سے ابھی بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو کہ  بہرحال اچھی روایت نہیں ہے۔ تمام ادارے ملکی وسائل سے بہم سہولیات کی بنیاد پر ہی یہ اہلیت اور طاقت کے حامل ہوتے ہیں جو پاکستان کے عوام کی ملکیت اور حقیقی اختیار ہے۔

حقوق اور اختیارات میں توازن آئین وقانون کی پاسداری سے ہی ممکن ہوتا ہے اور اسی سے ملک کے اندرونی باہمی اور بیرونی تعلقات اور قوم وملک کی عالمی سطح پر عزت و تکریم کا انحصار ہوتا ہے۔ کارکردگی کی پہچان آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہوتی ہے نہ کہ اختیارات کی طاقت کے استعمال سے سب ایک ہی دھرتی ماں کے بچے ہیں اور سب کو یہیں سے وسائل مہیا ہوتے ہیں جس میں سب شہری برابرکے شریک ہیں کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں ہے۔

ہر فرد اور ادارے کو سمجھنا ہوگا وگرنہ اس میں عدم توازن کی صورت میں ابھرنے والا تاثر کبھی بھی قوموں کی عالمی سطح پر عزت وتکریم کا سبب نہیں بنتا۔ طاقت کے بل بوتے پر وقتی مقاصد تو حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مگر حقیقی محبت اور عزت و تکریم کا حصول اس سے ممکن نہہں ہوتا۔

اب دیکھئے ان کی پاکستان واپسی کے سفر کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے یا نہیں لیکن ان کے آئینی منصب، حیثیت اور توقیر کی واپسی کا اب کوئی چانس نہیں ہے۔