سخت فیصلے ضرور لیں مگر سب کے لئے برابر

سخت فیصلے ضرور لیں مگر سب کے لئے برابر
یہ کیسے فیصلے ہیں جن کا بوجھ عوام کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ کچھ بالواسطہ تو کچھ بلا واسطہ۔ مثلاً پٹرول کی اگر قیمت بڑھے گی تو صرف موٹر سائیکل اور کاروں میں تو نہیں استعمال ہوتا، لوگ پیدل بھی چل لیں گے۔ مگر اس کا اثر ہر چھوٹی اور بڑی چیز کی قیمت پر پڑتا ہے جس پر سارے کے سارے کاروباری اپنا اپنا خرچہ ڈالتے جاتے ہیں اور آخر میں اصل استعمال کندہ تو عوام ہی ہے۔

عام لوگ جن کی نہ آمدن بڑھی ہے اور نہ ان کو سرکاری خزانے سے مراعات دی جاتی ہیں۔ بول بول کے تھک گئے ہیں کہ خدارا تنخواہوں اور مراعات کو ضروریات کی بنیاد پر دیا جائے مگر یہاں بیوروکریسی کو خوش کرنے کے لئے مراعات بھی ان کو دی جاتی ہیں جن کو نہ پٹرول خریدنا ہے نہ انہوں نے گھروں کے کرائے دینے ہیں۔

کیا قرضے لیتے وقت عوام کو اعتماد میں لیا گیا تھا جو اب عوام کو ساتھ دینے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ عوام پھر بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں مگر پریشانی یہ ہے کہ کل جب یہ جائیں گے تو بعد میں آنے والا کہے گا کہ پچھلے سب کچھ کھا گئے ہیں۔ تو پھر کیا بنے گا۔ اس کی عوام کو کون ضمانت دے گا کہ معیشت کی سمت درست چل رہی ہے۔

کیا سابق وزیراعظم نے نہیں کہا تھا کہ انہیں خبروں سے معلوم ہوا ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ کس کی یہ نااہلیاں ہیں؟ کس کو ہم ذمہ دار ٹھہرائیں؟ جس معاملے کا فیصلہ کابینہ میں نہ ہو اس کا عوام کو کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلے ہوتے کہاں ہیں؟ اور پھر سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ کوئی اس پہلو پر بات بھی نہیں کرتا اور نہ ہی وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی عوام پوچھنے کی سوچ سمجھ رکھتے ہیں۔

یہ پہلا واقعہ نہیں، ہماری تاریخ ایسے نااہل حکمرانوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ ابھی والے وزیر خزانہ بھی جب اپوزیشن میں تھے تو بڑے بڑے دعوے کرتے تھے مگر اب انہیں کے قدموں پر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔

محض چہرے بدل جانے سے بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جب پالیسیاں سب وہی ہیں، ہدایات انہیں اداروں کی چلنی ہیں۔ معاہدوں کی بیڑیاں ویسے ہی لگی رہنی ہیں۔ تو مجھے کہنے دیجئے کہ مالی معاملات کے سنبھالنے والے موجودہ لوگ بھی انہیں کی ٹیم کے بندے ہیں۔

اگر معاہدوں کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی رہی تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ بھوکے پیٹ تسلی نہیں مانتے اور عام لوگ ان تکنیکی مسائل کو نہیں سمجھتے۔ جب کسی کا بچہ بھوک سے مر رہا ہو تو اسے کچھ نہیں سوجھتا۔

کیا کر رہے ہیں آپ، تجارتی اور بجٹ خسارے میں کمی اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے؟ کیا منصوبہ بندی ہے آپ کی؟ لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ آخر کب تک عوام برداشت کر پائے گی۔

عوام سے تعاون کی توقع رکھنی ہے تو پھر حکمرانوں کو بھی خود کو حساب کتاب کے لیے پیش کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں کم و بیش تمام موجودہ اور سابقہ حکام ذمہ دار ہیں۔ اس لیے عوام ہی نہیں سب کو اپنے اپنے حصے کی قربانی دینا ہوگی۔

عزت سے جینا ہے تو قرضوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ مقروض قومیں کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتیں۔ ہم پہلے والے قرضوں کو بھی ختم کرنے کا کہتے ہیں اور حکومت اور لینے کی چکروں میں پڑی ہے۔

پہلا آپشن تو یہ ہے کہ قرضوں کی تقسیم دولت کے ذخائر کے تناسب سے کی جائے اور غریبوں کا حصہ بھی اہل استعداد افراد پر تقسیم کیا جائے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ اسلام آباد کے شاہی محلات کا سارا رقبہ بیچ کر قرضے ادا کئے جائیں۔ کسی بھی صورت غریب ممالک کے حکمرانوں کو یہ شہانہ طرز زندگی زیب نہی دیتی۔

عوام پر بوجھ ڈالنے والے سخت فیصلے اس وقت تک قبول نہیں کئے جا سکتے جب تک اس ملک کو لوٹنے والوں کا غیر جانبدارانہ احتساب نہ ہو۔ اگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے سخت فیصلے لئے جا سکتے ہیں تو پھر لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے معاملے پر بھی سخت فیصلے لینے ہونگے۔

اگر واقعی مخلص ہیں تو تمام سیاسی جماعتیں مل کر اچھے کردار اور شہرت کے حامل افراد کا ایک قومی احتساب بورڈ تشکیل دیں جو بلا تفریق سب کا احتساب کرے۔ حکومت کو شروعات کرنی چاہیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اس معاملے میں سنجید ہے اور کون محض سیاست کرنے کے لئے نعرے لگاتا ہے۔

ایسے قومی فیصلوں کے لئے دوتہائی اکثریت کا بھی کوئی بہانہ نہیں چل سکتا۔ سب جماعتیں مل کر یہ کام سر انجام دے سکتی ہیں۔ اگر حکومت اس کی شروعات نہیں کرتی تو پھر بڑے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ سب ایک جیسے ہی ہیں۔ کسی کو بھی عوام کی مشکلات سے سروکار نہیں ہے۔ سیاسی انتقام اور غیر منصفانہ احتساب کا راستہ بند کرنے کا یہی موزوں بندوبست ہے۔

اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر یہ لوٹ مار اور انتقام کی باریاں ایسے ہی لگی رہیں گی۔ یہاں میں عوام سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ اگر حکومت اب بھی یہ فیصلہ نہیں لیتی تو پھر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی طرح اپنی باریاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ تو ایسے میں قوم کے خاموش بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ان کو بہت آزما لیا، تحریک انصاف رہ گئی تھی، اب تو وہ بھی ان سے ایک قدم آگے لگ رہی ہے۔

قوم کو ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہوگا جو غیر جانبدار، اچھے کردار اور شہرت کے مالک ہوں اور ایسے لوگوں کو سیاست اور حکومت کی خواہش نہیں ہوتی۔ لہذا ایسے لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں سے زبردستی رہنمائی کے لئے نکالنا ہوگا اور عوامی طرز کے احتساب کا نمونہ متعارف کروانا ہوگا۔ جس میں ہر صاحب اختیار فرد اور ادارے کے کام میں مدد اور نگرانی کے عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسی طرح عالمی اداروں سے قرضوں کی مدد سے موجودہ صورتحال کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ اپنے آپ سے اور عوام سے دھوکا ہے۔ قرض اتارنے کے ساتھ ساتھ ہمیں متبادل ذرائع کو بھی دیکھنا پڑے گا جس میں سب سے پہلے ہمارے لئے موافق انسانی ذرائع کا استعمال کرکے آمدن کے ذرائع کو بڑھانا ہے۔ جس کے لئے موجود وقت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک شعبوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔

حکومت کو فی الفور ایسے مواقع ڈھونڈھ کر نوجوانوں کو تربیت کے ساتھ متعارف کروانے چاہیں۔ دوسرا بنیادی ضروریات کی چیزوں کی کمی پوری کرنے کے لئے ایمنسٹی سکیموں، بلا سود قرضوں، سبسڈیز وغیرہ کے تمام ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اس کے لئے کام کرنا ہوگا۔

تیسرا تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے فوراً خوراک، زراعت اور برآمدات کی ضروریات کے علاوہ سب چیزوں پر سختی سے قدغن لگا دینا چاہیے۔ چوتھا بین الاقوامی سطح پر باہمی دلچسپی والے ایسے معاہدے جن کا تعلق پاکستان میں سرمایہ کاری کے آنے سے ہے جیسا کہ سی پیک پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ حکمرانوں کو کفایت شعاری اور سادگی کا نمونہ بننا ہوگا۔

شہروں کے ماحول میں چین کی طرز کے انتظامی، تجارتی اور توانائی کی بچت کے نمونوں کو فوراً لاگو کر دینا چاہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے اقدامات ہیں جو اٹھائے جا سکتے ہیں۔ بات اخلاص کے ساتھ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے۔

ترقی کے لیے موجودہ سیاسی جماعتوں یا سیاسی رہنماؤں میں سے اگر کسی پر مکمل بھروسہ کیا جا سکتا ہے تو وہ مسلم لیگ ن ہے لیکن انہیں عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے ناصرف کچھ کرنا ہو گا بلکہ یہ سب کچھ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ لوگوں کو مطمئن رکھا جا سکے۔

اس کے لیے غیر جانبدار مبصرین کی تعیناتی کی ضرورت ہے جو عوام کو یقین دیتے رہیں کہ معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی ہر فرد جماعت اور ادارے کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سمجھایا جائے۔ اگر وہ واقعی صحیح خدشات یا تحفظات رکھتا ہے تو پھر اس کو پرامن اور غیر جانبدار ماحول میں مباحثے کی دعوت دی جائے اور اگر وہ اس سے کتراتا ہے اور اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو پھر اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔

پھر کہوں گا کہ عوام اب محض وعدے وعیدوں پر گزارا نہیں کرسکتی کچھ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے۔ آپ کے فیصلے بھلے اچھے ہوں مگر جب تک معیشت کے اشارے ٹھیک طرح سے امید نہیں جگائیں گے۔ تشویش ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ ڈالر مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ مہنگائی اور غربت بڑھتی جا رہی ہے۔