سمّی کے حوصلے البرز جیسے

سمّی کے حوصلے البرز جیسے
البرز اپنی ثانوی تاریخ کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ البرز کی بلند وبالا چٹانوں کی تہہ میں سرزمین سے وفاداری کے گیت گونجتے ہیں اور اس کے ذرے ذرے کو حوصلے کا ہار پہناتے ہیں۔

میں البرز اور سمّی کے حوصلہ کا موازنہ اس کے قدوقامت سے بھی نہیں کرنا چاہتا۔ ان دونوں کے درمیان موجود قامت بھی ثانوی ہے لیکن دونوں کے حوصلے مشترک ہو سکتے ہیں۔

سمّی کو سمجھنے کے لئے البرز شرط نہیں لیکن البرز کی طویل داستان حافظے میں قید کرنے سے پہلے سمّی کو اس لیے سمجھنا چاہیے کیونکہ البرز سمّی کی زمین ہے۔

سمی کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ البرز (زمین) کی خدمت سے سرشار زمین واسیوں کے ہسپتال ہورناچ سے جبری لاپتہ کئے جاتے ہیں۔ سمّی ان کی بازیابی کیلئے نعرہ بلند کرتی ہیں اور زمین واسی سمّی کی یکجہتی میں کریہ کریہ کھڑے ہو کر اس کے نعروں کو حفظ کرکے، تقویت بخشتے ہیں اور زمین کی ہر آہٹ میں سے سمّی کی آواز گونج اٹھتی ہے۔ باوجود اس کہ سمّی کے نعرے دم توڑیں، ریاست سمّی کے نعروں کو گونج فراہم کرتا ہے اور چودہ سال کی عمر بھی دیتی ہے۔

سمّی کے حوصلوں کو اُس دن تھمنا چاہیے تھا جب سمّی کی زمین کا وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی دکھانے پر گریزاں تھا۔ سمّی اُس دن کیوں حوصلوں کو زندہ کر رہی تھی جب ایوانوں کی دیواریں لاپتہ افراد کو افغان سرزمین پر ٹریک کرنے والے گونج رہے تھے۔

یا اُس دن سمّی کیوں وی بی ایم پی کے کیمپ کے سامنے بیٹھی رہی جب سمّی کو اپنے والد کی بازیابی کے لئے رسائی دینے والے بل جبری لاپتہ ہوگئے؟

سمّی اُس دن کی انتظار کیوں کرتی رہی جب وزیراعظم عمران خان ان کے والد کی بازیابی کی یقین دہانی کراکے اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سمّی ان کی یقین دہانی کا انتظار دو سال تک ان کی حکومت میں کرتے رہی۔

سمّی کے حوصلوں کو اُس دن زندہ کیوں رکھا جا رہا تھا جب عمران سرکار کے آخری دنوں میں ان کی کابینہ کے وزیر علی حیدر زیدی کی طرف سے ان کے والد سمیت لاپتہ افراد کا تمسخر اڑایا جا رہا تھا۔

عمران سرکار کے سابق وزیر فواد چودھری کا لاپتہ افراد کو دہشتگرد قرار دینے کا بیان سمّی کے حوصلوں کو کیوں پست نہ کر سکا۔ سمّی، مریم نواز کی ریلوے سیٹ کی اپوزیشن پٹڑی سے اتر کر وی آئی پی انکلیو میں بیٹھ جانے کے بعد ان کی یقین دہانیوں کا انتظار کیوں کر رہی ہے اور اتنے وقت کرتی رہی جب مریم کی پٹڑی میں بیٹھے مسافر بلاول بھٹو کی سندھ حکومت کے ہاتھوں ان پر تشدد کیا، ان کو جیل بھیجا اور زخمی کیا گیا۔

تیس دنوں میں دو بار سمّی بلوچ پر بلاول بھٹو کی سندھ حکومت نے لاٹھی چارج کیا اور دونوں مرتبہ سمّی کو تھانیدار کے کمرے میں بٹھا کر ہراساں کیا گیا۔ اور اب مریم اور بلاول کی مشترکہ حکومت ایکسپریس کے انکلیو میں بیٹھے قانون کی لاٹھی تھامنے والے حوالدار کے نئے بیان کو ہم نئی حکومتی روایات کے زمرے میں کیوں لائیں؟ سمّی کے حوصلوں کے لیے دعا کیوں کرتے رہیں؟

سمّی کے حوصلے پستی کے قریب تب کیوں نہیں آئے جب روایات کے پاسدار، ہر بلوچستان حکومت کے سربراہان یا تو سمی کے والد کو قندھار میں سیٹلائٹ سے دیکھتے تھے یا پھر سمّی کی محنتوں کو جھوٹ اور قومی سلامتی کے برخلاف سمجھتے تھے جس آخری فرد نے اس لسٹ کو تقویت دی تھی وہ ہیں وزیراعلی بلوچستان قدوس بزنجو۔

سمّی کے حوصلے، حوصلے ہیں نہ وقت دیکھتے ہیں اور نہ ہی حالات کی الٹ پلٹ سے گھبرا جاتے ہیں، بیانات سے دکھی ہوتے ہیں۔ البتہ بیانات دینے والے ایک پل ضرور سوچیں کہ سمّی کو وہ اب کیا گفٹ کر رہے ہیں اور اپوزیشن میں ان کا تحفہ کیا تھا۔

بطور انسان اپوزیشن کے درد بھرے احساسات کو محسوس کرتے رہیں تاکہ اپنی کل والی اپوزیشن کو بھی یاد رکھیں۔ اپنی اپوزیشنی حالات کا بھی جائزہ لیں اور اپنے سمیت سمّی کے دل دکھانے والوں کا انجام دھیرے دھیرے یاد کرتے رہیں۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ حزبِ اختلاف کے ادوار میں اڈیالہ جیل کی رواداد سناتے سناتے نہیں تھکتے اور انتقام کے بغض کو نہیں بھول پاتے۔

شاید سمّی کا دل دکھانا اس لئے حکومت میں ہوتے ہوئے آسان سمجھا جاتا ہے کہ سمّی کا آسرا صرف خدا کی لاٹھی ہے اور سمّی انتقامی کارروائی بھی ان کے خلاف کرنے والی نہیں ہے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔