سندھ میں پشتونوں کی قربانیاں "گو افغان گو" کے نعرے لگا کر مسخ کرنے کی کوشش

سندھ میں پشتونوں کی قربانیاں
سندھ دھرتی میں افغان واسی یا پشتونوں کی ہجرت کا سلسلہ افغانستان میں امیر امان اللہ خان کی حکومتی سے شروع ہوا۔ جنرل ایوب خان کی دورِ حکومت میں بھی پختونوں کی سندھ کی طرف نقل مکانی ہوئی تھی اور بیسویں صدی میں بھی سوات، بندو بستی سمیت قبائلی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں پختون سندھ کی دھرتی کی طرف اُمڈ آئے۔

غیر ملکی مفادات کے عوض پشتون علاقوں کو استعمال کرکے ان کے لئے زمین تنگ کر دی گئی تو مجبوراً سندھ دھرتی کی طرف ان کی نظر دوڑی۔ یہ باشندے روزی روٹی اور رہنے بسنے کے لیے یہاں آ کر آباد ہو گئے۔

ان میں سے بیشتر خانہ بدوشی رہے لیکن مٹی اور کوئلے کی مزدوری کرنا، اینٹوں کے بھٹے لگانا، ٹرانسپورٹ میں کام دھندا، چوکیداری اور ڈھابے اور ہوٹل کے کاروبار سے بھی وابستہ ہوئے۔

یوں سمجھ لیجئے جب کراچی روشنی کا شہر اور پھر موت کا شہر کہلایا تو پختون خون اور پسینہ بھی اس میں حصہ دار رہا۔ 12 مئی 2007ء کو جمہوری بالادستی اور عدلیہ کے وقار کے لئے پیپلز پارٹی، سندھی عوامی تحریک کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کا خون بھی نامعلوم ہاتھوں سے بہا تھا۔ سندھ میں پشتون کی قربانیوں کی لازوال تاریخ ڈھابے پر کھڑے لوگوں کے ہاتھوں " گو افغان گو" کے نعرے لگا کر مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔

ہوٹل مالک (پختون) استدعا کرتے رہے کہ سارے پٹھان ایک جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی ہم مجرم ہیں۔ یہی سندھی نوجوان "تم افغانی ہو" کہنے سے پہلے، ہوٹل بند نہ کراتے بلکہ یہ کہتے کہ چلو خان صاحب اگر سارے پٹھان مجرم نہیں تو ہمارے ساتھ، ہمارے لئے احتجاج کرو۔ تو یقین جانیں 1980ء اور 2007ء کی تاریخ پھر دہرائی جاتی۔

ایک نظریہ کے سائے تلے، کثیر القومی ریاست بنا کے ایک نام دینا جسے قوم کہا جاتا ہے، کس حد تک کامیاب ہے لیکن سندھ کی ہجوم کے الفاظ کچھ یوں تھے، " ہم ایک قوم نہیں، تم پٹھان ہم سندھی۔ سندھ دھرتی چھوڑو افغانستان چلو، تم لوگ ہمارے قاتل ہو"۔

پشتون ہوں، بلوچ، سندھی یا مہاجر۔ جب مدعا نسل تک آجائے تو نفرت کی آگ سے خود بخود پٹرول چِھڑتا ہے۔ پٹرول کی آگ کی لپیٹ تاریخ، روایات دیکھتی ہے اور نہ ہی بھائی چارے اور سندھی مہمان نوازی کو آگ کی لپیٹ میں بچا پاتی ہے۔

قوموں کے مابین اختلافات تاریخی و سیاسی حوالوں سے ہوتی ہیں۔ جسے احمد شاہ ابدالی پختونوں کے لیے ہیرو ہیں اور سندھی اسے ظالم غاصب فاتح مانتے ہیں۔ جس نے سندھ کی دھرتی تاراج کی تھی۔َ سندھ کی تاریخ کے کئی دور قندھار اور کابل سے آئے حملہ آوروں سے لڑ کر گزرے ہیں۔

سندھی صوفی شاعر فقیر عبدالرحیم گروہوڑی نے اپنی مشہور پیش گوئیوں پر مبنی شاعری میں کہا تھا' جڈہیں کڈہیں سندھڑی توکھے قندہارئوں جوکھو'۔ اس کا اردو ترجمہ ہے کہ جبھی کبھی سندھڑی تجھے قندھار سے خطرے۔

1980ء کی دہائی میں خان عبدالغفار خان سندھی قوم پرست جی ایم سید سے ملنے ان کے گاؤں تشریف لائے۔ راستے میں جامشورو کے قریب جب جئے سندھ کے کارکنوں نے خدائی خدمت گار رہنما کے استقبال میں ہوائی فائرنگ کی تو خان صاحب رنجیدہ ہوئے۔

کرسی پر بیٹھے باچا خان اور پیچھے کھڑے جی ایم سید کی پرانی تصویر بہت ہی تاریخی ہے۔ جس پر لکھا ہے " سندھ جی پارت ہجیو" (سندھ کا خیال رکھنا)۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔