متحدہ قومی موومنٹ پاکستانی مقتدر حلقے کے امتیازی سلوک کا شکار ہوئی

متحدہ قومی موومنٹ پاکستانی مقتدر حلقے کے امتیازی سلوک کا شکار ہوئی
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو سیاست کی جانب راغب کیا۔ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کے شہری علاقوں میں اس سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے مشہور تھی، کی بنیاد اور تشکیل کے حوالے سے دو آرا پائی جاتی ہیں۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں صوبہ سندھ کے اس وقت کے سیاسی منظر نامے پر غور کرنا ہوگا۔ اس وقت سندھی جاگیردار اور دائیں بازو کے کٹر جماعت اسلامی کے لوگ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں پر چھائے ہوئے تھے۔ سندھی جاگیردار پیپلز پارٹی میں جبکہ شہری علاقوں جیسے کراچی اور حیدرآباد کے مہاجر جماعت اسلامی میں جاتے تھے مگر یہ وہ مہاجر تھے جو دائیں بازو والی سوچ رکھتے تھے۔ مڈل کلاس کی بڑی تعداد جو مذہبی سیاست پر یقین نہیں رکھتی تھی، وہ سیاست سے لا تعلق تھی۔

اس وقت کراچی کی مختلف جامعات کے نوجوان اردو بولنے والے طالب علموں نے اپنی قوم کی اس محرومی کو محسوس کیا اور دیکھا کہ صوبے کے سیاسی منظرنامے پر ان کی نمائندگی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو بولنے والے مہاجر سندھی وڈیروں اور جماعت اسلامی کے مولویوں کے سامنے دبے ہوئے تھے۔ دونوں طبقے مسلح تھے اور مہاجروں کو مارتے تھے۔ اس وقت جنرل ضیا الحق کا مارشل لا لگ چکا تھا۔ الطاف حسین اپنی کلاس اردو بولنے والوں کی ایک مؤثر آواز بن چکے تھے۔ ان کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے دونوں مخالفین یعنی سندھی جاگیردار اور جماعت اسلامی کے مولوی مسلح تھے لہذا ان کے مقابل ہونے کے لیے الطاف حسین کے ساتھی بھی مسلح ہو گئے۔ مقتدر حلقوں کو سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مہاجروں کی اس جماعت پر دست شفقت رکھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم سندھی شہری علاقوں کی سب سے مؤثر سیاسی قوت بن گئی۔ الطاف حسین قومی سیاست کی ایک مؤثر آواز بن چکے تھے مگر ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ ایک ایسے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے تھے جن کے پاس دولت نہیں تھی اور سیاسی طور پر کبھی بھی کسی مضبوط سیاسی کیمپ کا حصہ نہیں رہے تھے لہذا ہیئت مقتدرہ کے ہاتھوں مسلسل استعمال ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پاکستان کی تشکیل اور فوجی قیادت کے خلاف ان کی تقریریں انہیں وہاں لے گئیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آ رہی۔

اب وہ نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کی طرح خوش قسمت یا دولت مند یا ہیئت مقتدرہ کے اس طرح پسندیدہ نہیں تھے کہ جس قدر مرضی فوج کے خلاف بول لیں آپ کے ساتھ ڈیل کے دروازے ہمشہ کھلے رہتے ہیں لہذا اب وہ پاکستان کی سیاست کا ایک بھولا بسرا کردار بن چکے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت ایم کیو ایم اس وقت ہیئت مقتدرہ کے ہاتھوں اس قدر استعمال ہو چکی ہے کہ اب کراچی میں اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ وہ مڈل کلاس جو کبھی ان کے ساتھ تھی، اب تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایم کیو ایم نے حال ہی میں کامران ٹیسوری جیسے متنازعہ کردار کو گورنر سندھ بنا کر اپنی ساکھ کو ایک بار پھر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نسیرین جلیل ہر لحاظ سے بہتر تھیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اپنے عروج کے زمانے میں بھی مڈل کلاس کو مضبوط نہیں کیا۔ الٹا ان کے قائدین فاروق ستار اور عشرت العباد وغیرہ نے صرف اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور سیاسی اور مالی فوائد حاصل کیے۔ آج اس مڈل کلاس گھرانے کی جماعت نے چار ماہ قبل عمران خان کی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر موجودہ مکس آچار حکمران اتحاد کا حصہ بن کر جو سیاسی غلطی کی، اس کا ازالہ شاید ان سے کبھی نہ ہو پائے۔

جنرل پرویز مشرف کا دور ایم کیو ایم کے عروج کا زمانہ تھا۔ تب یہ چاہتے تو جنرل مشرف معاملہ فہمی سے بات کر کے سندھ کی تاریخ میں پہلی بار اردو بولنے والے مہاجر کو وزیر اعلیٰ سندھ بنا سکتے تھے جو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو انتظامی بنیادوں پر ایک بہترین شہر بنا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ آج کراچی کی حالت زار پر بہت دکھ ہوتا ہے اور اس شہر کو اس حال پر پہنچانے میں اس شہر کے اپنے بیٹوں یعنی ایم کیو ایم کے قائدین کا بڑا ہاتھ ہے۔ پیپلز پارٹی سے آپ کبھی توقع نہ رکھیں کہ وہ کراچی کے لیے کچھ کرے گی۔ اگر کراچی کے لیے کچھ کر سکتے تھے تو وہ ایم کیو ایم والے تھے مگر انہوں نے سب موقعے ضائع کیے ہیں اور یہی اس شہر کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔