ضمنی انتخابات میں کامیابی نے عمران خان کی مقبولیت پر مہر ثبت کر دی ہے

ضمنی انتخابات میں کامیابی نے عمران خان کی مقبولیت پر مہر ثبت کر دی ہے
وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے پر حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد تلاطم کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 7 حلقوں سے الیکشن لڑا اور 6 سے جیت گئے۔ وہ پاکستان کے واحد سیاست دان بن گئے ہیں جو بیک وقت تین صوبوں یعنی سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے ہیں۔ کپتان نے یہ سیاسی چھکا لگا کر اپنا ہی ریکارڈ توڑا ہے۔ اس سے قبل وہ 2018 کے انتخابات میں 5 حلقوں سے جیتے تھے۔ اب انہوں نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس وقت ملک میں جب بھی الیکشن ہوتا ہے وہ ایک ہی نعرے پر ہوتا ہے؛ عمران خان کے خلاف یا حمایت میں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی دور میں بھٹو صاحب کے معاملے میں تھا۔ بھٹو صاحب بھی 1970 کے انتخابات میں 5 حلقوں سے لڑے تھے اور 4 پر کامیاب ہوئے تھے۔

عمران خان نے مردان، چارسدہ، پشاور، فیصل آباد، ننکانہ صاحب اور کراچی کے ایک حلقے سے کامیابی حاصل کی جبکہ کراچی ہی کے دوسرے حلقے سے وہ ہار گئے جس کے بارے میں خاصے شکوک وشبہات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس حلقے کے انتخابی عملے کے اہلکاروں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور سندھ پولیس کی کارروائی بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ جس طرح وہاں مبینہ طور پر دھاندلی کی گئی، اس پر الیکشن کمیشن کی خاموشی شرم ناک ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر جس کو عمران خان نے خود لگایا تھا اور جسے اب عمران خان اپنی غلطی قرار دیتے ہیں ان کی جانبداری عیاں ہو چکی ہے۔

اس الیکشن میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے۔ وسطی پنجاب جو ان کا سیاسی گڑھ تصور کیا جاتا تھا، وہاں کے دو حلقوں فیصل آباد اور ننکانہ سے وہ ہار گئے اور پنجاب اسمبلی کی جن تین سیٹوں پر الیکشن ہوئے وہ ان کی اپنی ہی تھیں۔ شیخوپورہ، چشتیاں اور خانیوال میں سے خانیوال اور چشتیاں سے ہار گئے۔ ان ضمنی انتخابات کی کامیابی نے ایک پھر کپتان کی مقبولیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اس سے قبل جولائی کے ضمنی انتخاب میں پنجاب میں وہ (ن) لیگ کو عبرت ناک شکست دے چکا ہے۔ بلاشبہ کپتان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے۔ ایک تن تہنا لیڈر اپنے 13 سیاسی حریفوں کو جس طرح بچھاڑ رہا ہے اس کی مثال کم از پاکستان میں بھٹو صاحب کے بعد اب ملی ہے۔ بھٹو صاحب 9 جماعتوں کے اتحاد کے خلاف فاتح ہوئے تھے جبکہ کپتان ان سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اب ساری قوم کی نظریں کپتان کے لانگ مارچ کے اعلان پر لگی ہوئی ہیں۔

حالیہ سروے کے مطابق کپتان کی مقبولیت 51 فیصد ہے جبکہ نواز شریف کی 21 فیصد۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ مکس اچار حکمران اتحاد اس وقت بہت دباؤ میں ہے۔ ان کے امیدوار سوائے ملتان کے ہر جگہ سے ہارے ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا ہے کہ کراچی کے حلقے ملیر کی جیت مشکوک ہے۔ ملتان میں علی موسیٰ گیلانی کی فتح بالکل ٹھیک ہے۔ یہ تحریک انصاف کے اپنے ہی بیانیے کی فتح ہے۔ جب ایک جماعت موروثی سیاست کے خلاف نعرہ لگاتی ہے تو پھر اگر خود اس سے روگردانی کرتی ہے تو پھر اسے اس کی سزا ملنی چاہئیے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملتان میں اپنے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو ہرا کر انہیں اچھا سبق سکھایا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔