ایک جرنیل عمران خان کو یقین دلا چکا ہے کہ وہ اس کے لئے لازم و ملزوم ہے

ایک جرنیل عمران خان کو یقین دلا چکا ہے کہ وہ اس کے لئے لازم و ملزوم ہے
کیا پاکستان کی سیاست اتنی محکوم اور کمزور ہے کہ ایک آرمی چیف کی پسند ناپسند کی محتاج ہو؟

عمران خان کا لانگ مارچ ارشد شریف کے قتل سے شروع ہوتا ہے اور پھر منزل تک پہنچنے کی کوئی تاریخ نہیں دی جاتی۔ لانگ مارچ ایوننگ واک کا منظر پیش کرتا ہے۔ چند گھنٹوں کا سفر کئی دن بعد بھی وزیر آباد تک بھی نہیں پہنچ پاتا۔ آخر کس چیز کا انتظار تھا؟

کسی خبر کا؟ کسی سمری کا یا خُدا نخواستہ کسی قتل کا؟

ایک شخص نے اپنے مقاصد کے لئے عمران خان جیسے شخص کو کیسے استعمال کیا یہ بھی ایک پُراسرار کہانی کی طرح ہے۔ کوئی جادو ہے جس کے سحر میں اتنا بڑا لیڈر آ چکا ہے۔ اپنی سیاست کو ادارے کے ایک افسر پر قُربان کرنے پر تُل گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیئر اور نوجوان لیڈر جب اُس سے پوچھتے ہیں کہ ہم کب اسلام آباد پہنچیں گے یا لانگ مارچ کیسے کامیاب ہوگا یا حکومت اور آرمی کے ایک صفحے پر ہونے کے وجود ہم اپنے مقاصد کیسے حاصل کریں گے یا سب سے بڑھ کر ہمارے مقاصد ہیں کیا؟ تو جواب ندارد!

پاکستان میں کئی سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے۔ جماعت اسلامی 1960 سے 2007 تک ایک ادارے کے تزویراتی مقاصد کے لئے سہولت کار رہی ہے لیکن وہ ایک ادارے کی اجتماعی سوچ کی سہولت کار تھی۔ کسی ایک راندہ درگاہ شخص کی نہیں جس کا کریئر ایک پوسٹنگ کی مار ہے۔

یہ سوال کہ عمران خان نے کیوں اپنے آپ کو ایک شخص کی خواہشات کا آلہ کار بنا لیا ہے، اس کا کوئی سیاسی یا منطقی جواب نہیں ہے۔ اس سوال کا جواب عمران خان کے نفسیاتی تجزیے اور شخصی کمزوری پہلوؤں میں ہے۔

ایک انتہائی خود پرست شخص جو کوکین جیسے نشے کا تیس برس سے شکار ہو، ایک غیر حقیقی دُنیا میں رہتا ہے۔ وہ طاقت اور دولت کو تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ ایک جرنیل نے طاقت اور دولت کا سہارا لے کر اُس کو اقتدار تک پہنچا دیا اور اُس کے لئے الٰہ دین کے چراغ کے جِن کی طرح ہر وقت حاظر رہتا تھا۔

آج وہی جرنیل اس کو یہ یقین دلا چکا ہے کہ وہ اُس کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ عمران ایسا آدمی تھا جو لوگوں کو استعمال کر کے پھینک دیتا تھا۔ آج وہی اپنے سارے سیاسی سرمائے کو ایک شخص کی خاطر داؤ پر لگا چکا ہے۔

پنکی پیرنی اور وہ جرنیل اصل میں ایک دوسرے کے بھی سہولت کار ہیں اور دونوں کا جادو عمران پر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کے لاکھوں چاہنے والے ہزاروں کارکن صرف دو اشخاص کے شیطانی عزائم کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ قتل اور خون کالے جادو کا اثر بڑھا دیتا ہے اور وہ اس خونی مارچ میں اُن کو مل رہا ہے۔

سیاسی سوچ کا فقدان اور تخلیقی خیالات کی شدید کمی اس ملک کی جڑیں ہلا رہی ہے۔ شخصیت پرستی اور شیطانی قوت پر بھروسہ کسی بڑے سانحے پر مُنتج ہو سکتا ہے جہاں سے واپسی بھی ناممکن ہوگی۔ عمران ایک بڑا لیڈر تھا لیکن شیطانی قوتوں نے اسے یر غمال بنا لیا ہے۔