کیا ہم غلام ہیں جو بات بے بات سڑکوں پہ نکل کر احتجاج شروع کر دیں!

کیا ہم غلام ہیں جو بات بے بات سڑکوں پہ نکل کر احتجاج شروع کر دیں!
ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ عمران خان کو کتنی گولیاں لگیں، یہ گولیاں کس نے چلائیں اور کیوں چلائیں، جس نے بھی یہ ڈرامہ رچایا یا یہ مکمل فلم بنائی اس کا مقصد کیا تھا؛ ان سب باتوں سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کو کل جو احتجاج کے نام پر ذلیل کیا گیا ہے اس پر میں سب کو مودر الزام ٹھہرانے سے پہلے اپنے عوام کو ملزم بھی اور مجرم بھی قرار دیتا ہوں۔ کیونکہ ہمارے ملک میں جو بھی ہو رہا ہے اس میں براہ راست ہم سب ملوث ہیں۔ اگر ہم ان سیاسی مداریوں کے ہاتھوں میں نہ کھلیتے اور یہ ڈگڈگی بجا کر ہمیں نہ ناچنے پر مجبور نہ کرتے تو مجال ہے نوبت یہاں تک آتی۔ کچھ عوام ایک پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں تو کچھ دوسری پارٹی کو۔ پارٹیاں بھی مکھیوں کی طرح ہیں اور ان کے لیڈران بھی مکھیوں کی طرح بھنبھاتے رہتے ہیں۔ ہر گلی کوچے سے لیڈر اور سیاست دان نکلتا ہے جو صرف یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ مخلص ہوں حالانکہ وہ ہاتھ بھی ملانے سے کتراتا ہے۔ جب الیکشن ہوتے ہیں تو پھر عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔

صحافت کرنے سے لے کر سکھانے تک میں نے ہزاروں مظاہرے کور کئے ہیں اور ہزاروں خبریں لکھی ہیں۔ ہر بندے نے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ ہر پارٹی نے احتجاج کیا اور ہر بندے سے لیکر پارٹی تک اسی کو ہی احتجاج تصور کیا جاتا ہے کہ سڑکوں پر آ کر روڈ بند کر لیں۔ ہاتھوں میں بینر پکڑیں اور شور مچا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیں تاکہ میڈیا کوریج مل جائے۔ جب تک سڑک کو عوام کے لئے بند نہیں کر لیا جاتا، ہمارا احتجاج مکمل ہی نہیں ہوتا۔ ذرا تاریخ میں مجھے ایسا کوئی احتجاج پاکستان میں دکھائیں جو سڑکوں کی بندش کے بغیر مکمل ہوا ہو۔ پریشان مت ہو جائیے گا یہ چند لوگوں کا، غریبوں کا احتجاج ہوسکتا ہے کیونکہ اُن کے ساتھ قانون آہنی ہاتھوں سے نمٹتا ہے جبکہ جو بڑوں کے آلہ کار ہوتے ہیں وہ احتجاج بڑے ہوتے ہیں اور سڑکوں کی بندش اُس میں لازمی ہوتی ہے۔

بہت سے احتجاجوں میں شرکت کا موقع ملا اور یہی تکلیف اور اذیت اُٹھانی پڑی۔ کل کے اسد عمر کے احتجاج کی کال پر ہم بھی رشکئی نوشہرہ میں پھنس گئے کیونکہ وہاں بلوائیوں نے حملہ کر دیا تھا اور یہ بلوائی پی ٹی آئی کے تھے۔ بلوائی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ گاڑیوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور حملہ کرنے کے موڈ میں تھے۔ پتہ نہیں کون سا جنون اُن پر سوار تھا۔ اُن کا سرغنہ ایک ہی نوجوان تھا جو نعرے بھی لگا رہا تھا۔ باقی اسے داد دے رہے تھے تو وہ اور چوڑا ہو جاتا کہ بس میں ہی سب کچھ ہوں۔ موٹروے پولیس بے بس نظر آئی کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے سے وہ بیچارے تو رہے۔ ایک گھنٹہ پہلے ہمیں صوابی انٹر چینج پر عوامی نیشنل پارٹی کے ورکروں نے گھیر لیا تھا جن کے ہاتھوں میں امن کے سفید جھنڈے تھے اور ان کے سرخ جھنڈے تھے مگر جو کام انہوں نے امن مارچ کے نام پر کیا، وہ کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے بھی سڑک بند کی ہوئی تھی اور کنٹینر لگایا ہوا تھا۔ پتہ نہیں یہ ملک سے کنٹینر کی سیاست کب ختم ہوگی کیونکہ جب سے یہ سیاست میں داخل ہوا ہے ملک کا ستیاناس ہوگیا ہے۔ عوام کا جم غفیر تھا مگر جو مسافر تھے، انہیں تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ رُل رہے تھے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ہاتھوں رُلنے کے بعد پی ٹی آئی کے ہاتھوں ذلیل ہونا بھی قسمت میں لکھا تھا۔ ایک گھنٹے کا سفر 12 گھنٹے میں طے ہوا اور جن مصیبتوں سے یہ سفر پورا ہوا بتانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ حال صرف میرا نہیں ہر مسافر کا ہے جو کسی احتجاج میں پھنستا ہے۔ کل گاڑی میں خواتین نے جو عمران خان اور دیگر سیاست دانوں کو گالیاں دیں وہ ڈکشنریوں میں بھی نہیں ملتیں۔ وہ کہہ رہی تھیں اپنا کام کرے اور ہمیں دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے چھوڑ دے۔ ہمیں ان سے کچھ نہیں چاہئیے۔ زیادہ تر لوگ عمران خان سے متنفر تھے اور اسے ڈرامے باز ہی تصور کر رہے تھے۔ ایک دو پی ٹی آئی کے کارکن بھی گاڑی میں تھے جو کتنے ہی سالوں سے پارٹی میں تھے مگر گزشتہ روز کے احتجاج میں وہ پارٹی لیڈر کی حرکتوں کو بچگانہ قرار دے رہے تھے اور پارٹی سے دستبرداری کا اعلان کر رہے تھے کہ عوام کے لئے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ اُلٹا انہیں سب ذلیل کرنے آئے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے مگر احتجاج کے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ اگر عوام کو تکلیف پہنچانا احتجاج ہے تو لعنت ہو ایسی قیادت پر اور ایسے احتجاج پر۔ مگر عوام بھی سوچیں کہ ہمیں کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم سڑکوں پر آئیں۔ کیا ہم ان سیاست دانوں کے غلام ہیں کہ یہ ہمیں جو کہیں ہم وہی کرتے چلے جائیں۔ اگر یہ بات ہمارے عوام کے ذہنوں میں بیٹھ گئی تو کوئی بھی سڑکوں پر نہیں آئے گا۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔