راگ درباری میں 'انوکھا لاڈلہ' گا کر بلقیس خانم امر ہو گئیں

راگ درباری میں 'انوکھا لاڈلہ' گا کر بلقیس خانم امر ہو گئیں
جن فنکاروں کا فن ہمارے بچپن کا ساتھی تھا، اب ایک ایک کر کے پرلوک سدھارتے جا رہے ہیں۔ شوکت علی، اقبال بانو، نیرہ نور کے بعد اب بلقیس خانم صاحبہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔

کمال کی خاتون تھیں۔ صوفی منش۔ درویش۔ اچانک نمودار ہو گئیں ٹی وی پر۔ آساں نہ تھا استاد نذر حسین کی استھائی اور انترہ گانا۔ 'کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں' عبیداللہ علیم کی غزل ہے، کوئی آسان نہ تھا راگ مدھ کونس میں اسے گانا۔ بڑے بڑے اس میں ہاتھ ڈالنے سے گھبرائیں۔ مگر خوب گایا بلقیس بیگم صاحبہ نے۔ قریب 30 برس پہلے اوپر نیچے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ والدہ میری حیات تھیں اس وقت۔ پرستار تھیں بلقیس کی۔ بولیں کہ اگر نذر حسین نہ چاہتے تو ہرگز نہ گا سکتی تھی۔ یہ گانا میں نے نہیں گایا، انہوں نے گوایا ہے۔
کوئی ولی ہی ایسا سچ بول سکتا ہے!

بزرگ کہتے ہیں راگ درباری گانا عورتوں کا کام نہیں۔ مگر بلقیس نے غلط ثابت کیا 'انوکھا لاڈلا ' گا کر۔ پھر وہ کرشمہ انجام دیا کہ انسان کہے سبحان اللہ۔ اپنی ذات میں غرق اور خود کو دنیائے ستار میں عقل کل سمجھنے والا استاد رئیس خان ان کے حسن اور آواز کے آگے ڈھیر ہو گیا۔ شادی کر لی اور بھارت بھی چھوڑ دیا۔ پاکستانی شہریت قبول کر لی۔ بندہ پوچھے کہ خاں صاحب یہ کیا حماقت کی۔ اس ملک کو چھوڑ کر تو بڑے غلام علی خان بھارتی شہری بنے۔ وجہ فنکاروں کی تذلیل زیڈ اے بخاری ایسے جاہلوں کے ہاتھ۔ بخاری صاحب کہتے ہیں بڑے غلام علی خاں کو کہ مجھ سے گنڈا بندھواؤ۔ اب اس پہ بندہ یا تو اپنے آپ کو مارے یا بخاری کو۔ پر رئیس خان وہ بھارت جو انہیں دیوتا مانے چھوڑ چھاڑ کراچی آ گئے اور لمبی تان کر ایسا سوئے کہ ان کا ستار اس دن سے آگے کبھی بڑھا ہی نہیں۔ البتہ روز بہ روز پاکستان کی طرح ضرور ہوتا گیا۔

جب خان صاحب، بلقیس اور ان کے بچے ہمارے گھر کو رونق بخشنے پہنچے تو ہماری والدہ نے فرمایا کہ کیسا محسوس ہوتا ہو گا آپ کو ٹی وی پر آ کر جب پورا پاکستان آپ کو دیکھتا ہو گا، پوجتا ہو گا۔ تو جانتے ہیں کیا فرمایا انہوں نے؟ 'ٹی وی پر بغیر کسی پروڈیوسر کے ساتھ سوئے آپ آ ہی نہیں سکتے!' اور ہم سب سننے والے سکتے میں!! پر بادشاہ عورت! کوئی پروا نہیں۔ آج کل سنا ہے کوئی قنون شنون بنا ہے پی ٹی وی کو نتھ ڈالنے کے لئے جس کا نام سیکس چول ہراس منٹ ہے۔ ہمیں تو اس میں صرف 'چول' پسند ہے۔ ہم اسے کہتے ہیں سیکس چول ہر منٹ۔ یہی وجہ تھی کہ خان صاحب سے شادی کے بعد بلقیس صاحبہ نے گانا چھوڑ دیا اور خان صاحب کا خاندانی پس منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ولایت خان، شاہد پرویز، رئیس خان یہ ایک ہی گھرانہ ہے۔ بھلے آپ پڑیں میوات یا اتاوا گھرانے کی بحث میں۔ دونوں ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ اب کون پہلا ہے؟ میوات یا اتاوا، یہ سرسوتی دیوی جانے۔ ہمارا کام نہیں۔ ہم تو سنویے اور کن رسیے ہیں۔ اور اب تو عالم یہ ہے خان صاحبوں کے پاس گانا تو ہے نہیں صرف گھرانہ ہے۔

اپنے دوست نذیر عامر (پی ٹی وی پروڈیوسر) نے بڑی مشکل سے خاں صاحب کو آمادہ کیا کہ کم از کم ایک پروگرام بلقیس کے ساتھ کرنے کی اجازت دے دیں۔ خان صاحب نے دے دی۔ بلقیس نے پرانے گانے نئے دور میں گائے۔ اسے بھی اب تیس برس بیتے۔ کھنڈرات ابھی تک بتا رہے تھے کہ عمارت کیسی ہو گی۔

بلقیس صاحبہ کو بمبئی کی آب و ہوا سے الرجی۔ ان کی خاطر رئیس خان صاحب پاکستان ہجرت فرما گئے۔ بلقیس کو آرام صرف ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب کی دوا سے آتا جو بے نظیر بھٹو کے سرکاری ہومیو پیتھ ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر صاحب ستار بھی بجایا کرتے تھے۔ ایک بار خان صاحب دوا لینے پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے شکوہ کیا کہ بھائی بغیر ستار کیوں پدھارے۔ پہلے ستار لے کر آؤ پھر دوا ملے گی۔ اب جہاں ستار پڑا تھا وہ جگہ ڈاکٹر صاحب کے گھر سے کوئی 25 کلومیٹر دور۔ کسی کو بھیجا۔ ستار منگوایا۔ دوپہر تھی۔ خان صاحب نے برندا بنی سارنگ بجایا۔ مزا آیا۔ تب جا کر دوا ملی!

بلقیس سے رئیس خان صاحب واقعی بہت پیار کرتے تھے اور وہ ان سے۔ 'بلقیس' نہیں 'خانم' کہا کرتے تھے۔ جب بھی رئیس خان صاحب ولایت خان صاحب (ان کے ماموں جن سے ان کی نہیں بنتی تھی) کی برائی کرتے، بلقیس ٹوک دیا کرتیں۔ پر خان صاحب پھر بھی باز نہ آتے!

روز کسی کے جانے کی خبر ملتی ہے۔ کل پرسوں ڈاکٹر تابش حاظر گئے۔ ایک دن بعد بلقیس۔ دونوں عظیم اور عاجز لوگ۔ اب ہم کس لئے جیئیں؟
؎ سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔