بالی وڈ نے فلم بینوں کو معیاری موسیقی سے محروم کر دیا ہے

بالی وڈ نے فلم بینوں کو معیاری موسیقی سے محروم کر دیا ہے
موسیقی ہمیشہ سے برصغیر کی فلموں کا خاصا رہی ہے۔ دادا صاحب پھالکے نے پہلی ہندوستانی فلم بنائی جو خاموش فلم تھی۔ جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تب سے ہی گانے فلموں میں کہانی کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن گئے۔ پردہ سکرین پر اداکار اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے موسیقی کا سہارا لیتے تھے۔ اظہار محبت ہو یا نفرت کا اظہار کرنا ہو، فلمی موسیقی فلم بینوں کو قائل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ برصغیر کی فلمی صنعت کے پنپنے میں موسیقاروں، شاعروں اور گلوکاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

کے ایل سہگل کے دور سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ اب بھی جاری ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بالی وڈ کی فلموں پر جو کچھ عرصہ سے زوال آیا ہے اس میں غیر معیاری فلمی موسیقی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جنوبی بھارت کی فلموں کی پذیرائی اس لئے بھی ہو رہی ہے کہ وہاں اعلیٰ موسیقی بن رہی ہے۔

بالی وڈ کی فلمی موسیقی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو نوشاد، ایس ڈی برمن، شنکر جے کشن، آر ڈی برمن، مدن موہن، لکشمی کانت پیارے لال، بپی لہری، رجیش روشن، انو ملک، ندیم شروان اور جتن للت جیسے موسیقار نظر آتے ہیں۔ شاعروں میں ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، حسرت جے پوری، انجان، گلزار، جاوید اختر، سمیر اور گلوکاروں میں منا ڈے، ہیمنت کمار، محمد رفیع، مکیش، کشور کمار، محمد عزیز، کمار سانو، ادت نارائن، ابھیجیت، لتا جی، آشا جی، الکا، کویتا کرشنا مورتی جیسے نام ہیں مگر جانے کیا ہوا کہ پچھلے چند سالوں سے بالی وڈ والوں سے گیت نہیں بن رہے۔

کیا شاعروں سے لفظ روٹھ گئے ہیں؟ موسیقار تان لگانا بھول گئے یا گلوکار بے سرے ہو گئے ہیں؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ابھی بھی اے آر رحمان، ہمیش، پریتم جیسے موسیقار جبکہ ارشاد کامل، امیتابھ بھٹہ چاریا، منوج منتشر جیسے شاعر ہیں اور اریجیت سنگھ، شریا گھوشال جیسی آوازیں ییں۔ فرق یہ ہے ان سے کام لینے والے فلمساز اور ہدایت کار نہیں ہیں۔

سنیما ہمیشہ لارجر دین لائف ہوتا ہے۔ یہ چند لونڈے ریبل سنیما کے نام پر جو تجربات کر رہے ہیں اس نے بالی وڈ سے اس کی روح چھین لی ہے۔ یاد رکھیں موسیقی ہی بالی وڈ کی زبان ہے۔ بالی وڈ کو اس کی زبان سے محروم نہ کریں ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ جنوبی بھارت کی فلموں کو ہندوستانی فلمی صنعت میں مرکزیت حاصل ہو جائے گی جو کسی طرح بھی ہمارے فلم بین کے لئے قابل قبول نہیں ہو گی۔

گانے ہماری زندگیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت میں تو موسیقی 1980 کی دہائی کے آخر تک مردہ ہو گئی تھی۔ خواجہ خورشید انور، فیروز نظامی، روبن گھوش جیسے موسیقار جبکہ تنویر نقوی، قتیل شفائی جیسے شاعر اور مہدی حسن، احمد رشدی، اے نیر، رونا لیلیٰ، نور جہاں جیسی آوازیں سنائی نہیں دیتی تھیں۔ اس دور میں بالی وڈ ہی ہماری وہ آغوش تھی جہاں مدھر گیتوں میں ہمیشہ سکون ملتا تھا مگر اب وہ کسی اور رستے پر چل رہے ہیں جو قابل قبول نہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔