توہین مذہب قوانین کا غلط استعمال روکنے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں

توہین مذہب قوانین کا غلط استعمال روکنے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں
تابیتا گل مسیحی خاتون ہیں جو کہ کراچی کے سرکاری ہسپتال میں بطور نرس فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ 28 جنوری 2021 کو معمول کے مطابق ہسپتال میں وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں کہ اچانک کچھ لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ حملہ آوروں نے لاتوں، گھونسوں، مکوں اور جوتوں سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس تمام معاملے کی باقاعدہ عکس بندی کی گئی اور یہ ویڈیو کلپس اسی دن ہی وائرل کر دیے گئے۔ تابیتا گل پر تشدد کرنے والوں نے الزام عائد کیا کہ مذہبی عقائد کی توہین کی ہے جس پر تابیتا گل کے خلاف کراچی کے تھانہ آرام باغ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جب تابیتا گل پر تشدد کیا جا رہا تھا تو بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ میں نے کسی کے مذہب کی توہین نہیں کی، میں بے گناہ ہوں مگر اس کے باوجود مقدمہ درج ہونے اور تفتیش سے قبل ہی اسے سزاوار قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں تفتیش کے بعد الزامات غلط ثابت ہوئے جس پر تابیتا گل کو رہا کردیا گیا اور اسے بھی جان کے تحفظ کے لئے بیرون ملک پناہ لینا پڑی۔

جائے ملازمت (workplace) پر کسی غیر مسلم کو توہین مذہب کے الزام کے تحت تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں اور اب بھی تواتر سے ہو رہے ہیں۔ نرس تابیتا گل پر تشدد کا واقعہ منظر عام پر آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بھی ایسا ہی واقعہ سامنے آیا تھا جس میں ہسپتال کی دو نرسوں پر توہین مذہب کا الزام عائد کر کے انہیں وارڈ میں بند کر دیا گیا تھا اور ہسپتال کے ایک ملازم نے چھری سے ان پر حملہ بھی کیا تھا۔ بعدازاں کئی گھنٹے محبوس رکھنے کے بعد ہسپتال کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی مدعیت میں نرسوں کے خلاف زیر دفعہ 295 سی تھانہ سول لائنز میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

توہین مذہب قوانین کا غلط استعمال

سنٹر فار سوشل جسٹس (سی ایس جے) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہزاروں افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کئے جا چکے ہیں۔ ان میں سے بیش تر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے کئی لوگ زندگی سے گئے ہیں۔ توہین مذہب کے زیادہ تر الزامات ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہوتے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے اس امر کی نفی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال نہیں ہو رہا۔ اگر کسی شخص پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو اس کی باقاعدہ تحقیقات کی جاتی ہیں۔ جرم ثابت ہونے پر سزا ملتی ہے، نہیں تو عدالتیں اسے بری کر دیتی ہیں۔

مینارٹی رائٹس فورم کی سپوکس پرسن شیریں اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین اگرچہ مذہبی عقائد اور شعائر کی حرمت بچانے کے لئے بنائے گئے ہیں مگر ان کے غلط استعمال سے عام شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

توہین مذہب کے بیش تر الزامات عدالتوں میں غلط ثابت ہوتے ہیں

کرسچین جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سینیئر ممبر اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ کاشف نواب کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی وجہ سے جہاں مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں وہیں پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کے تحت درج ہونے والے بیش تر مقدمات عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں غلط ثابت ہوئے جس کی بنا پر زیادہ تر ملزمان کو رہائی ملی ہے۔ ان میں آسیہ مسیح کا کیس خاصی شہرت کا حامل ہے۔ آسیہ مسیح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ کی رہنے والی تھی جس پر توہین مذہب کے الزام کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ طویل عرصہ جیل میں رہنے کے بعد جب آسیہ بی بی کو سپریم کورٹ سے رہائی ملی تو وہ اپنے خاندان سمیت تحفظ کے لئے کینیڈا شفٹ ہو گئی تھی۔

آسیہ بی بی کی طرح سلامت مسیح اور منظور مسیح کا کیس بھی عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنا تھا۔ اس کیس میں کمسن لڑکے سمیت اس کے چچا کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دیا گیا تھا جنہیں بعدازاں سپریم کورٹ نے بری کر دیا تھا تو انہوں نے تحفظ کی خاطر جرمنی میں پناہ لے لی تھی۔ اس طرح کے درجنوں واقعات موجود ہیں۔ ان میں سب سے اندوہناک واقعہ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کا تھا۔ پریانتھا کمارا سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینجر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ فیکٹری ملازمین کی جانب سے توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلا دیا گیا تھا۔

توہین مذہب قوانین کا پس منظر

پاکستان میں رائج توہین مذہب کے موجودہ قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کروائے گئے تھے۔ 1980 سے 1986 تک توہین مذہب کے ان قوانین میں متعدد ترامیم کی گئی تھیں۔ 1980 میں متعارف کروائے گئے توہین مذہب کے قوانین کے تحت مذہبی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو جرم قرار دیا گیا تھا جن کی سزا 3 سال قید مقرر کی گئی تھی۔ 1982 میں ایک اور شق متعارف کرائی گئی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی سزا پھانسی رکھی گئی جبکہ بعدازاں توہین مذہب کے قوانین میں دفعہ 295 بی اور 295 سی کا اضافہ کیا گیا جن کے تحت آنحصرت صلی اللہ وعلیہ وسلم کی توہین پر سزائے موت یا عمر قید کی شق کو توہین مذہب کے قوانین میں شامل کیا گیا۔



حالیہ دنوں میں 17 جنوری 2023 کو توہین مذہب کے حوالے سے ایک اور بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت صحابہؓ، اہل بیتؓ اور امہات المومنینؓ کی توہین پر عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ ریاض بھٹی کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین بناتے وقت اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ مذہبی شعائر کی توہین کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے مگر اس امر کا تعین نہیں کیا گیا کہ اگر کسی پر توہین مذہب کا غلط الزام لگایا جاتا ہے تو اس کے لئے کیا سزا ہو گئی جس کی وجہ سے توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال جاری ہے۔

توہین مذہب کے ملزمان ماورائے عدالت قتل کر دیے جاتے ہیں

توہین مذہب کے الزامات کے تحت جن افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ان میں سے کسی کو بھی عدالت کے حکم پر سزائے موت نہیں دی گئی مگر اس الزام کے تحت مورد الزام ٹھہرائے گئے افراد میں سے بیش تر کو ماورائے عدالت ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پاکستان کے مؤقر اخبار روزنامہ جنگ کی یکم نومبر 2018 کی اشاعت کے مطابق 1987 سے 2018 تک پاکستان بھر میں توہین مذہب کے 702 مقدمات درج کئے گئے۔ اس دوران 1500 افراد پر توہین مذہب کے الزامات لگے اور 1472 پر فرد جرم عائد کی گئی۔ ان میں سے کسی کو بھی عدالت نے سزائے موت نہیں دی بلکہ اعلیٰ عدالتوں نے 80 فیصد سزائیں بھی ختم کیں مگر بدقسمتی سے توہین مذہب کے ملزمان میں سے 62 افراد کو عدالت پہنچنے سے پہلے ہی جان سے مار دیا گیا۔ ان میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی بھی شامل ہیں۔

گورنر سلمان تاثیر آسیہ بی بی کے ہمراہ


توہین مذہب کے مقدمات پر سرکاری محکموں کی خاموشی

توہین مذہب کے مقدمات میں سے کتنے سچ ثابت ہوئے ہیں اور کتنے ذاتی عناد کی بنا پر درج کروائے گئے تھے، اس حوالے سے کوئی بھی سرکاری محکمہ معلومات دینے کو تیار نہیں ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے ذریعے بھی وزارت داخلہ، وزارت انسانی حقوق، پولیس ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی مگر کسی بھی ادارے نے معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ یہاں تک کہ وزارت داخلہ نے بھی یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ توہین مذہب کے مقدمات میں نامزد کتنے افراد رہائی ملنے کے بعد جان کے تحفظ کے لئے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ بدقسمتی سے اس معاملے کو حساس ایشو قرار دے کر اس پر بات کرنا گوارا نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان قوانین کا غلط استعمال کرنے والوں کا راستہ روکنے میں بدستور دشواریاں حائل ہیں۔

توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کے سدباب میں رکاوٹیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی نوید عامر جیوا کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے غلط استعمال کے سدباب میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام ہے۔ جب بھی اس حوالے سے کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں بات کرتی ہے یا قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے تو حکومت چلی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس حوالے سے مثبت پیش رفت نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں سیاسی حکومت کا آئینی مدت پوری نہ کرنا بھی مثبت قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر انسانی حقوق و اقلیتی امور اعجاز عالم آگسٹین کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنا ملکی سالمیت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور اراکین پارلیمنٹ کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

قوانین کے غلط استعمال کے سدباب کے لئے حکومتی اقدامات

توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لئے جنرل مشرف کے دور حکومت میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ توہین مذہب کے مقدمات کی ایس ایس پی سطح کا آفیسر تفتیش کرے جس کے بعد جرم کے ثبوت ملنے پر متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی اجازت سے مقدمہ درج کیا جائے۔ اس تجویز کا اقلیتی حلقوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا تھا تاہم مذہبی جماعتوں کے دباؤ کے باعث اس تجویز پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ جنرل مشرف کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ان قوانین کا غلط استعمال روکنے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کی جانب سے اعلانات تو کئے جاتے ہیں مگر اس حوالے سے تاحال قابل ذکر یا عملی اقدمات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین مذہب کا غلط استعمال بلا روک ٹوک جاری ہے۔

سمیر اجمل کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔