• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, مارچ 30, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟

1984 کے بعد سے اب تک 280 احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 170 ایسے ہیں جو صرف پچھلے دس سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ 69 فیصد ہلاکتیں صرف صوبہ پنجاب میں ہوئی ہیں۔ اس عرصے کے دوران احمدیوں پر 379 حملے ہوئے جبکہ 27 عبادت گاہوں کو تباہ اور 33 کو بند کیا گیا۔

خضر حیات by خضر حیات
مارچ 15, 2023
in فیچر
196 2
2
پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟
231
SHARES
1.1k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

یوں تو پاکستان میں بسنے والی کم و بیش تمام ہی اقلیتی برادریوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم احمدی برادری کی حالت کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہے۔ پاکستان کی ریاست، حکومتیں، نصاب، عدم برداشت اور سوشل میڈیا سمیت کئی محرکات ہیں جنہوں نے اس برادری کے خلاف نفرت انگیز فضا کی تخلیق میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے کے واقعات میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احمدی کمیونٹی کے قبرستانوں پر حملے کر کے ان کی قبروں کی بے حرمتی کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ بعض واقعات میں توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کی یہ کارروائی پولیس کی موجودگی میں سرانجام پاتی ہے۔ اس قسم کے اکثر و بیش تر واقعات پر ریاست خاموش رہتی ہے اور مجرموں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جاتی۔

RelatedPosts

عمران خان جیسے بزدل لیڈر کی مرتضیٰ بھٹو سے مماثلت کسی صورت درست نہیں

حکومت اور حساس اداروں کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر دہشت گردی سے نمٹنا ہوگا

Load More

احمدی برادری کے ساتھ پاکستان میں جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اس کے محرکات جاننے کے لئے تاریخ میں جھانکنا پڑے گا۔

1953 کے احمدی مخالف فسادات

1953 میں مجلس احرار کی جانب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر دنگے پھوٹ پڑے۔ ان فسادات کے حوالے سے بننے والے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے روزنامہ زمیندار کے مدیر اور تحریک ختم نبوت کے اہم رہنما مولانا اختر علی خان نے بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ فسادات وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ کے کہنے پہ شروع ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چاہتے تھے کہ فسادات کا رخ پنجاب کی صوبائی حکومت کے بجائے کراچی کی مرکزی حکومت کی جانب ہونا چاہئیے اور یہ بھی کہ انہوں نے یہ فسادات پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو وزارت کے منصب سے ہٹوانے کے لئے شروع کروائے تھے۔ سر ظفر اللہ خان کا تعلق احمدی برادری سے تھا۔

1953 میں شروع ہونے والے احمدی مخالف فسادات کا ایک منظر

ممتاز دولتانہ کی حکومت نے اردو پریس خاص طور پر روزنامہ زمیندار کو احمدیوں کے خلاف خبریں چھاپنے اور نفرت انگیز فضا ہموار کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔

احمدی غیر مسلم قرار

30 جون 1974 کو مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس کے بعد مولانا مفتی محمود کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے والی کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اس نوعیت کے چھ بل پیش ہوئے اور دو ماہ کی بحث و تمحیص کے بعد 6 ستمبر 1974 کو دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے پیپلز پارٹی حکومت کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔

جنرل ضیاء الحق کا امتناع قادیانیت آرڈیننس

ضیاء الحق کے امتناع قادیانیت آرڈیننس نے احمدیوں کے خلاف نفرت کو کئی گنا بڑھا دیا

جنرل ضیاء الحق نے احمدی برادری سے متعلق مزید سخت قوانین متعارف کروائے۔ انہوں نے 26 اپریل 1984 کو امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا جس کے تحت قادیانیوں کو مسلمانوں سے مختلف شناخت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 278 سی اور 298 بی کے تحت اب جماعت احمدیہ کا کوئی رکن خود کو مسلمان ظاہر کرے، اپنی عبادت گاہوں کے لیے کوئی اسلامی اصطلاح استعمال کرے، السلام علیکم کہے یا بسم اللہ پڑھے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہے یا اذان دے تو اسے تین برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کا 2014 کا تاریخی فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014 میں ازخود نوٹس لینے کے بعد ایک تاریخی فیصلہ دیا جس میں احمدی برادری کی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان عبادت گاہوں کی مسماری کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا مگر اس حکمنامے کے باوجود احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

احمدی قربانی نہیں کر سکتے

27 جولائی 2020 کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کو ایک خط لکھا اور گزارش کی کہ قربانی چونکہ سنتِ ابراہیمیؑ اور سنتِ محمدیؐ ہے جو کہ خاتم النبیینؐ ہیں لہٰذا قربانی کی رسم انہی شعائرِ اسلامی میں آتی ہے جن کو اپنانے کا آئین کے تحت احمدیوں کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے احمدیوں کو قربانی کی سنت ادا کرنے سے منع کیا جائے۔

احمدیہ عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر ہونے والے حملے

ضیاء الحق کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے بعد معاشرتی سطح پر احمدی برادری کے خلاف عمومی نفرت بڑھی اور ان کے خلاف مقدمات میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے بعد سے معاشرتی سطح پر احمدیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کئی شکلوں میں سامنے آتا رہا ہے۔ بعض اوقات انفرادی طور پر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو حملہ کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ کبھی ان کے گھروں پر حملہ ہوتا ہے۔ احمدی عبادت گاہوں پر تو تواتر کے ساتھ حملے ہوتے رہتے ہیں جبکہ بے شمار واقعات میں ان کی قبروں کی بے حرمتی بھی کی جاتی رہی ہے۔

احمدیہ قبروں کی بے حرمتی کے بے شمار واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں

جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین بتاتے ہیں کہ یکم مئی 1984 کے بعد سے اب تک 280 احمدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 170 ایسے ہیں جو صرف پچھلے دس سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ 69 فیصد ہلاکتیں صرف صوبہ پنجاب میں ہوئی ہیں۔ اس عرصے کے دوران احمدیوں پر 379 حملے ہوئے جبکہ 27 عبادت گاہوں کو تباہ اور 33 کو بند کیا گیا۔

احمدیہ عبادت گاہوں پر سب سے خوفناک حملہ لاہور میں ہوا۔ 28 مئی 2010 کو یوم تکبیر کے موقع پر لاہور کے علاقوں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں احمدیہ برادری کی دو عبادت گاہوں پر منظم حملے کیے گئے جن کے نتیجے میں 87 کے قریب احمدی ہلاک جبکہ 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے اور عبادت گاہوں کو شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان کی تاریخ میں احمدی عبادت گاہوں پر یہ سب سے بڑے حملے تھے۔

28 مئی 2010 کو گڑھی شاہو لاہور میں احمدی عبادت گاہ پر حملے کا منظر

2019 میں سیالکوٹ کے چھتی بازار میں احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کو تحریک لبیک اور دیگر مذہبی تنظیموں کے کارکنان نے مل کر مسمار کر دیا تھا۔

جولائی 2020 میں تاری گری گوجرانوالہ کے احمدی قبرستان میں پولیس نے 60 سے زائد قبروں پر لگے کتبے توڑ دیے تھے۔

دسمبر 2020 میں شیخوپورہ کے شاہ مسکین احمدی قبرستان میں 40 کے قریب قبروں کے منارے توڑے گئے اور قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔

جنوری 2021 میں ننکانہ صاحب کے علاقے کوٹ دیالداس میں ایک مقامی شخص کی درخواست پر احمدی عبادت گاہ پر تعمیر کردہ میناروں کے خلاف پولیس نے کارروائی کی اور پوری عبادت گاہ کو مسمار کر دیا۔

سیالکوٹ میں 100 سال سے بھی قدیم احمدی عبادت گاہ کو مسمار کر دیا گیا

جنوری 2021 میں تھانہ شرقپور شریف کی حدود میں احمدی قبروں کی بے حرمتی کے خلاف درخواست جمع کرائی گئی۔ قبروں کی بے حرمتی پر کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے الٹا احمدی کمیونٹی کے درجنوں افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

اپریل 2022 میں مظفر گڑھ کے علاقے چوک سرور میں مشتعل ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب مسمار کر دیے۔

4 جون 2022 کو جہلم میں پنڈ دادن خان کے مقام پر احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے۔

20 نومبر 2022 کو ضلع فیصل آباد کے چک نمبر 89 ج ب رتن میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس نے مذکورہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔

7 اور 8 دسمبر 2022 کی درمیانی رات کو گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں پولیس کی جانب سے احمدی عبادت گاہ کے دو مینار مسمار کر دیے گئے۔ پولیس نے رات کی تاریکی میں گلی کی لائٹیں بند کرکے یہ آپریشن مکمل کیا۔

گوجرانوالا کے علاقے باغبانپورہ میں احمدیہ عبادت گاہ کے مینار توڑ دیے گئے

10 اور 11 جنوری 2023 کی رات کو وزیر آباد شہر کے موتی بازار میں 108 سال پرانی احمدی عبادت گاہ کے میناروں کو پولیس نے مسمار کر دیا۔

18 جنوری 2023 کو دن دیہاڑے چند شرپسند افراد مارٹن روڈ کراچی پر واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو گئے اور دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کے آنے پر حملہ آور سیڑھی اور ہتھوڑا چھوڑ کر بھاگ گئے۔

مارٹن روڈ کراچی پر شرپسند افراد دن دیہاڑے سیڑھی لگا کر احمدیہ عبادت گاہ کے مینار توڑ کر فرار ہو گئے

21 جنوری 2023 کو ضلع سیالکوٹ کے چک پیرو میں ایک 75 سالہ احمدی خاتون وفات پا گئیں تو مقامی مشترکہ قبرستان میں ان کی تدفین کی اجازت نہ دی گئی۔ اس واقعے میں بھی پولیس نے حسب روایت احمدیوں کو مجبور کیا کہ میت کہیں اور لے جا کر دفن کر دیں۔ جس پر اس خاتون کی تدفین 250 کلومیٹر دور واقع ربوہ کے قبرستان میں لے جا کر کرنا پڑی۔

22 جنوری 2023 کی آدھی رات کو کچھ نامعلوم شرپسندوں نے ضلع فیصل آباد کے چک نمبر 89 ج ب رتن میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی۔ شر پسند عناصر خاردار تاریں کاٹ کر احمدی قبرستان میں داخل ہوئے اور قبروں کی توڑ پھوڑ کی۔ اس کے بعد انہوں نے تابوتوں اور کچھ دیگر اشیا کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی۔

2 فروری 2023 کو سہ پہر کے وقت کراچی کے علاقے صدر میں احمدیہ ہال کے مینار شر پسند عناصر نے مسمار کر دیے۔ اگرچہ احمدیہ ہال کے میناروں سے متعلق مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے مگر اس روز پانچ سے دس شرپسند آئے جن میں سے چار افراد دیوار کے اوپر چڑھ گئے اور ہتھوڑوں سے مینار توڑ دیے۔ نیچے کھڑے دیگر شرپسندوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگائے۔ ان حملہ آوروں کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے بتایا گیا ہے۔

کراچی کے علاقے صدر میں پولیس کی موجودگی میں احمدیہ عبادت گاہ کے مینار توڑے گئے اور نعرے بازی کی گئی

3 فروری 2023 کی رات کو چند افراد میر پور خاص کے علاقے گوٹھ غازی خان مرانی میں قائم احمدی عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہو گئے اور عبادت گاہ کے مینار توڑ دیے۔ اس کے بعد انہوں نے برآمدے میں آگ لگا دی۔

3 فروری ہی کی رات کو ضلع عمر کوٹ کے علاقے نورنگر میں احمدیوں کی عبادت گاہ بیت الذکر پر پٹرول چھڑک کر نذر آتش کر دیا گیا جس سے عبادت گاہ کے ہال میں موجود تمام صفیں اور کرسیاں وغیرہ جل گئیں۔

4 فروری 2023 کی رات کو میر پور خاص شہر میں سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں نامعلوم افراد نے احمدیہ عبادت گاہ پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے وقت مقامی صدر اور کمیونٹی کے دیگر افراد عبادت گاہ میں موجود تھے تاہم وہ فائرنگ سے محفوظ رہے۔

1998 کے بعد سے احمدیوں کی آبادی میں 35 فیصد کمی

عدم تحفظ کے احساس نے بڑے پیمانے پر احمدیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1998 سے 2017 کے دوران ملک میں احمدیوں کی آبادی میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں احمدیوں کی تعداد 2 لاکھ 91 ہزار 1 سو 75 افراد پر مشتمل تھی جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 1 لاکھ 91 ہزار 7 سو 37 افراد رہ گئی ہے۔ بعض بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں احمدیوں کی تعداد اس سے قدرے زیادہ ہے کیونکہ بعض احمدی خوف کی وجہ سے اپنا اندراج کروانے سے گھبراتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان بتاتے ہیں کہ فی الحال پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی 4 سے 5 لاکھ کے بیچ ہے۔

احمدی کمیونٹی نشانے پر کیوں رہتی ہے؟

احمدی کمیونٹی پر بلاروک ٹوک جاری حملوں کی مختلف وجوہات ہیں۔

حکومتی رویہ

احمدی برادری کے بارے میں پائی جانے والی نفرت اور ان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کی سب سے بڑی وجہ حکومتی رویہ ہے۔ احمدی برادری پر جب کوئی حملہ کیا جاتا ہے تو ریاست کی جانب سے اس حملے کی کھل کر مذمت نہیں کی جاتی۔ بعض حکومتی نمائندے اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس نظر آتے ہیں جبکہ بعض دیگر اس نفرت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسن پیرزادہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دن دیہاڑے احمدیوں پر حملے کر کے انہیں قتل کیا جا رہا ہے، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ ہمارے ملک میں عدم برداشت کا ماحول بنانے میں ہمارے ادارے اور محافظ ملوث ہیں۔

ریاست پاکستان اور حکومتی ادارے احمدی برادری پر ہونے والے تشدد پر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ ایک میڈیا ٹاک میں کہتے ہیں کہ وہ عنقریب بہت بڑی مسجد بنا رہے ہیں جس کے باہر لکھا ہوگا کہ قادیانیوں کا داخلہ منع ہے۔ مارچ 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سربراہی میں نکاح نامے میں ایک شق شامل کرنے کی منظوری دی جس کے تحت نکاح نامے کے ساتھ ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا حلف نامہ بھی جمع کروانا ضروری قرار دیا گیا۔

پاکستان کا قانون، پارلیمنٹ کے آرڈی ننس اور عدلیہ کے فیصلوں کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو وہ احمدیوں کے خلاف موجودہ رویے کو بڑھاوا دینے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ احمدیوں کو بلاسفیمر اور غدار قرار دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو سماجی سطح پر خاصی پذیرائی ملتی ہے۔ پاکستان میں تحریک لبیک کی پیدائش اور مختصر عرصے میں معاشرے میں اس کی نفوذ پذیری اس رویے کا ایک اہم مظہر ہے۔

تحریک لبیک کا جن

ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر بلاسفیمی کا الزام لگا اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں انہوں نے بلاسفیمی سے متعلق قوانین کا ازسرنو جائزہ لینے کی بات کہی۔ اس تجویز کو یہ رنگ دیا گیا کہ سلمان تاثیر توہین کے قوانین کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ سلمان تاثیر کے خلاف نفرت پر مبنی بھرپور مہم چلی اور اسی نفرت انگیز ماحول میں ایک روز ان کے ذاتی سکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے انہیں قتل کر دیا۔ لاہور میں ایک مدرسے سے جڑے مذہبی رہنما علامہ خادم رضوی نے سلمان تاثیر کو گستاخ قرار دیا اور ممتاز قادری کو غازی قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت میں سڑکوں پر آ گئے۔ خادم رضوی کے مؤقف اور انداز بیان کو خوب پذیرائی ملی۔ انہوں نے اس تحریک کو 2015 میں تحریک لبیک کا نام دیا اور اسے سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیا۔

تحریک لبیک پاکستان کے بانی علامہ خادم حسین رضوی

خادم رضوی کی تحریک لبیک نے آسیہ بی بی اور سلمان تاثیر کو ملعون قرار دیتے ہوئے بیانیہ بنایا کہ ملک میں بلاسفیمی کے قوانین کو مزید سخت کیا جانا چاہئیے۔ پچھلے چند سالوں میں احمدی برادری، ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر ہونے والے حملوں میں جو واضح طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تحریک لبیک کا وجود میں آنا بھی اس کی اہم وجہ ہے۔

2017 میں نواز شریف حکومت کے دور میں جب تحریک لبیک نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا تو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے کہا تھا کہ ان کا دل چاہتا ہے وہ خود اس دھرنے میں شریک ہوں۔ شیخ رشید نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحریک لبیک کے مطالبات کو مانیں۔ بعد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کام کرنے والے تحقیقاتی کمیشن نے اس دھرنے کے پیچھے اہم فوجی اہلکاروں کے کارفرما ہونے کی بھی نشان دہی کی تھی۔

فیض آباد دھرنے کے شرکا میں پاک فوج کے اہلکار کی جانب سے چیک تقسیم کیے گئے

اس کے بعد قرآن مجید کی بے حرمتی پر فرانس کے سفیر کو دربدر کرنے کے مطالبے پر 2021 کے شروع میں تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج شروع کر دیا۔ اس دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تصادم کے کئی واقعات بھی پیش آئے جن میں کئی پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ احتجاج کے دوران بڑے پیمانے پر عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک غیر معمولی واقعے میں تحریک لبیک کے حامیوں نے لاہور کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے پولیس عملے کو یرغمال بنا لیا اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

تحریک لبیک کے احتجاج کا ایک منظر

ماضی میں تحریک لبیک کی حمایت کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور ان کے سربراہ عمران خان اب بہت بری طرح پھنس کے رہ گئے۔ ایک جانب وہ تحریک لبیک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور دوسری جانب ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کے کھوکھلے دعوے کر رہے تھے۔ جب تحریک لبیک کسی طرح قابو میں آتی نظر نہ آئی تو 14 اپریل 2021 کو وزیر داخلہ شیخ رشید نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس پابندی کے باوجود حکومت نے مزاکرات میں کالعدم تنظیم کے کم و بیش تمام مطالبات مان لیے جن کے تحت تحریک کے تمام گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کر دیا گیا۔ اس طرح پی ٹی آئی حکومت نے تحریک لبیک کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بدترین مثال قائم کی۔

اسی تحریک لبیک کے حامیوں نے دسمبر 2021 میں توہین مذہب کا الزام لگا کر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو دن دیہاڑے بے دردی سے ہلاک کر دیا اور ان کی لاش کو  نذر آتش کر دیا گیا۔

3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے مینجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا اور ان کی لاش کو نذر آتش کر دیا گیا

ریاست اور حکومتیں تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے سامنے آج بھی اسی طرح بے بس نظر آتی ہیں جیسے 1953 میں تھیں۔ ریاست اور حکومتوں کا یہی معذرت خواہانہ رویہ ایسی تحریکوں کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریاستی بے بسی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حاضر سروس آرمی چیف کے بارے میں جب یہ مشہور کر دیا جاتا ہے کہ وہ احمدی ہیں تو انہیں بھی عدم تحفظ کا احساس گھیرے میں لے لیتا ہے اور انہیں اپنے گھر پر محفل میلاد منعقد کروا کر یقین دلانا پڑتا ہے کہ وہ ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔

نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام

ریاستی کمزوری کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ عقیدے کے باعث ایک نوبیل انعام یافتہ سائنس دان کا نام تک لینا پاکستان میں برا سمجھتا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جنہیں نظریاتی فزکس کے میدان میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی برادری سے ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ تعصب کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی کاوشوں کو پاکستان میں کسی فورم پر قابل ذکر نہیں گردانا جاتا اور انہیں مکمل بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔

نوبیل انعام کی تقریب میں ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کا روایتی لباس زیب تن کیا

پاکستان سے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا تھا؛
‘ہمیں ایک گھر ورثے میں ملا ہے جس میں کھڑکیاں نہیں ہیں اور اس کی دیواریں بہت اونچی ہیں۔ ہمیں کبھی کبھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ گھر ہے یا جیل۔’

1965 اور 1971 کی جنگوں کے احمدی ہیرو

پاک بھارت جنگوں میں کئی احمدی ہیروز نے بہادری کے جوہر دکھائے

ایک وقت تھا جب درسی کتابوں میں بھی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لینے والے احمدی ہیروز کا ذکر تصویروں کے ساتھ شامل تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان تمام ہیروز کے نام تاریخ کی کتابوں سے غائب کر دیے گئے۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ، لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک، ایئر مارشل ظفر چودھری، لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک، میجر افضال محمود شہید، سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد شہید اور دیگر متعدد افسر اور جوان ایسے ہیں جنہوں نے ان جنگوں میں فیصلہ کن معرکے سرانجام دیے مگر اب ان کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔

سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مباحثے

سوشل میڈیا کافی حد تک ہماری مجموعی معاشرتی سوچ کا عکاس بن چکا ہے اور ہمارے سوشل میڈیا پر پچھلے چند سالوں سے احمدی برادری کے خلاف نفرت انگیز مواد اور بحث مباحثوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 53 فیصد نفرت انگیز گفتگو احمدی کمیونٹی کے خلاف کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر فتوے بھی جاری کیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کا وجود بذات خود توہین آمیز ہے۔ اس طرح کے دعوؤں اور اعلانات سے بہت سے دیکھنے سننے والوں کو شہہ ملتی ہے اور وہ احمدی افراد، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے قبرستانوں پر حملے کرنے کو چڑھ دوڑتے ہیں۔

Tags: 1953 کے فساداتآسیہ بی بیاحمدی برادریاحمدی غیر مسلمامتناع قادیانیت آرڈیننسپاکستان کا ایٹمی پروگرامپاکستان میں اقلیتیںتحریک لبیک پاکستانجنرل ضیاء الحقختم نبوتﷺذوالفقار علی بھٹوڈاکٹر عبدالسلامعلامہ خادم حسین رضویفیض آباد دھرناگورنر پنجاب سلمان تاثیرلبیک یا رسول اللہﷺممتاز قادری
Previous Post

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

Next Post

آرمی چیف تعیناتی کے وقت مارشل لاء نافذ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا؛ شہباز شریف

خضر حیات

خضر حیات

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
آرمی چیف تعیناتی کے وقت مارشل لاء نافذ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا؛ شہباز شریف

آرمی چیف تعیناتی کے وقت مارشل لاء نافذ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا؛ شہباز شریف

Comments 2

  1. نعیم احمد says:
    2 ہفتے ago

    جناب خضر حیات کا مضمون نہایت فکر انگیز کیس ہے پاکستان کی سیاسی ، مزہبی ، عسکری قیادت ، بیورو کریسی اور عدلیہ کے لیے اور بڑا چیلنج بھی ۔ گزشتہ سات دہایوں میں احمدی برادری ہر بے انتہا مظالم پر مجرمانہ خاموشی کا ہی یہ نتیجہ ہے سنگین جرائم ملک کے وجود میں سرایت کے چکے ہیں ۔اور آج پاکستان کا وجود متزلزل نظر آ رہا ہے ۔ اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے۔

    جواب دیں
    • خضر حیات says:
      1 ہفتہ ago

      جی جناب صورت حال بالکل ایسی ہی ہے جیسی آپ بتا رہے ہیں۔ خدا رحم کرے!

      جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Shehbaz-Sharif-Vs-Bandial

چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے آئینی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوگا

by اعجاز احمد
مارچ 29, 2023
0

...

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

by شاہد میتلا
مارچ 29, 2023
0

...

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In