مکالموں اور ساز و آواز سے سجا نوجوان دلوں کو گرمانے والا لاہوتی میلہ

مکالموں اور ساز و آواز سے سجا نوجوان دلوں کو گرمانے والا لاہوتی میلہ
حیدر آباد سندھ کے آسمان پر 6 مئی 2023 کی رات پورا چاند تھا اور اس ہی رات کو 10 ویں لاہوتی میلے کی تقریب رونمائی بھی تھی۔ پورے چاند کے نیچے نوجوان دلوں کا یہ میلہ زندگی کی علامت لگ رہا تھا۔ لاہوتی کے منتظمین سیف سمیجو اور ان کی ہم سفر ثنا ایس نے 6 اور 7 مئی کے لئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دلوں کی گلی آباد کرنے کے لیے مکالموں اور ساز و آواز کی نیاز سٹیڈیم کے برابر حیدر آباد کلب میں حسین دنیا تخلیق کی ہوئی تھی۔



نوجوانوں میں مقبول لاہوتی میلے کے اندر دریائے سندھ کی بات دریائے سندھ کے بہت قریب بیٹھ کر کی جا رہی تھی۔ یہاں دریائے راوی کا نوحہ پڑھا گیا، بدھا کو یاد کیا جا رہا تھا، حال ہی میں کندھ کوٹ سندھ میں برادری تکرار میں قتل کیے جانے والے سکھر آئی بی ای یونیورسٹی کے نوجوان پروفیسر اجمل ساوند کو یاد کیا گیا، ان کے قتل کے اسباب اور سانحے پر بات چیت کی گئی، ان کو امن کے گیت سے خراج پیش کیا گیا۔ عوامی مقامات پر بات چیت ہوئی، قدیم عمارتوں کے نمونوں پر بات ہوئی، پرندوں پر بات ہوئی، ماحولیاتی تبدیلیوں، آلودگی، موسمی مہربانیوں اور نامہربانیوں پر بات ہوئی۔



گٹار اور شاہ بھٹائی کے تنبورے کو ایک ہی جگہ بجایا جا رہا تھا۔ مٹی سے بنا ساز بوڑینڈو اور قدیم ساز الغوزہ بھی سننے کو ملا۔ جدید دور کے لاہوتی اپنی زمین کے راگ، شاعری اور دانش سے سیکھتے اور محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔ استاد ذوالفقار، بھورو بھگت، لوک فنکارہ مائی ڈھائی، حمیرا چنا، سیف سمیجو، اریب اظہر کے ساتھ امریکہ، جرمنی اور نیپال سے آئے فنکاروں نے نوجوانوں کی روحوں اور دلوں کو دو دنوں تک گرمائے رکھا۔ انہیں اپنے ساتھ گیتوں پر رقص کرنے پر راغب کیا۔



لاہوتی میلہ جدید اور قدیم کا میلاپ ہے۔ پاپ، راک اور فوک ایک جگہ گائے جا رہے تھے۔ وہ لوک گیت اور ساز جو مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں، لاہوتی کے سٹیج پر گائے اور بجائے گئے۔ امیر خسرو، بابا بلھے شاہ، شاہ بھٹائی اور بابا غلام فرید جیسے اس خطے کے انسان دوست، امن و فن دوست صوفیوں کا کلام جدید سازوں پر جدید انداز میں گایا گیا۔ لاہوتی میلہ کسی شاعر کے خواب جیسی سندھ کی ایک حقیقی مثال ہے۔ لاہوتی میں اس ملک کی تقریباً سبھی زبانیں بولی اور گائی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں موجود دانش شاعری کی صورت میں، سر و ساز کی صورت میں یا پھر کسی مقرر کی بات چیت کی صورت میں نوجوانوں تک پہنچتی ہے۔



لاہوتی میلے کو کسی مقرر نے دور حاضر کی موسیقی کی تحریک کا نام دیا تو کسی نے کہا کہ یہ برگروں کو اپنی زمین سے جوڑنے والا میلہ ہے۔



سُر، ساز کے اس میلے میں اس بار رقص نظر نہیں آیا جو لاہوتی کا نمایاں رنگ ہوتا ہے۔ میلے میں شرکت کے لیے پاسز کی رکھی گئی فیس نے بھی پہلے دن شائقین کو دور رکھا مگر دوسرے دن جیسے ہی فیس ختم کی گئی تو پورا حیدرآباد امنڈ پڑا۔ حیدرآباد کلب میں 7 مئی کو رات گئے تک نوجوان تھے اور وہاں صرف راگ اور ان کا رقص ہی رہا۔



وسعت اللہ خان، عمبر رحیم شمسی، ماروی مظہر، ابوذر مادھو، نیپال سے آئی اینی چوئینگ ڈرالما ((Ani Choying Drolma، جامی چانڈیو، حسن عباس، اسحاق سمیجو اور اشو لال جیسے ادب، سیاست، پانی/دریائوں، صحافت اور فن کی دنیا کے بڑے ناموں نے لاہوتی کے سٹیج پر امیدوں کی فصل اگائی۔ پولیس کے ڈی آئی جی حیدر آباد ڈویژن پیر محمد شاہ ویسے نمائندگی تو اپنے محکمے کی کرنے کے لیے مدعو تھے مگر وسعت اللہ خان اور جامی چانڈیو کی باتوں نے انہیں ایسا گھیرا کہ وہ بھی محتاط باغی اور اصلاحات پسند مقرر بن کر باتیں کرنے لگے اور پیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اس طرح کے میلے ہوتے رہیں، ادب اور فن والے اپنی یہ مزاحمت جاری رکھیں تو ریاست اور ادارے ایک دن ضرور اپنہ رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لاہوتی میلے کا شاید اصل مقصد بھی یہی ہو۔

اشفاق لغاری صحافت کے طالب علم ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور گھومنا پھرنا ان کے محبوب مشغلے ہیں۔