• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

‘پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھا’

نیا دور by نیا دور
ستمبر 30, 2021
in فیچر
11 0
0
‘پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھا’
12
SHARES
59
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

 

20 ستمبر 1916ء کو لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹا تھا‘ پورا گاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا جنون تھا‘اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھال ہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے کے لئے جاتا۔

RelatedPosts

ضمنی انتخابات ملتوی، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا ایک دوسرے پر الیکشن سے بھاگنے کا الزام

حلقہ این اے 245: پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرا لیا

Load More

گھر سے سکول تک کا سفر پیدل طے کرتا۔ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے لاہور آیا اوریہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں (جو کہ اس وقت کا نمبر 1 سکول تھا) داخلہ لے لیا‘اس کا گاؤں شہر سے 13 کلومیٹر دور تھا‘ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان حالات کے مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنی تعلیم جاری رکھے گا، چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتامختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا‘ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا‘ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا اس کام سے فارغ ہو کرمسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور بھاگم بھاگ سکول پہنچتا۔ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا‘ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔ بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے‘ سکول کے لئے بوٹ بہت ضروری تھے‘ جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے اپنے لیے جوتے خریدے‘ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی جوتے پہنتا تو وہ جلدی گھِس جاتے چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا اور شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتااور اپنے سکول کے جوتے پہن کے سکول چلا جاتا۔

والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا‘ 1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا‘ اب وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ریڑھی میں دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کر دیتا ‘اس کام میں کبھی اس نے عار محسوس نہ کیا‘ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھااور کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا چنانچہ اسے کلا س سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی‘ اس معاملے کا علم اساتذہ کو ہوا تو انہوں نے اس ذہین طالبعلم کی مدد کی‘ نوجوان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا‘ 1939ء میں اس نے بی اے آنر کیا‘ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا‘

یہ نوجوان اس دوران جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا‘ کامیابیوں اور بہتریں کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔ معاشی دباؤ کے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء یعنی قانون پڑھنا تھا لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔1950ء سے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی‘ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا‘ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے‘اس جذبہ کے تحت 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا‘

پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔1971ء میں دوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا‘ 1972ء کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا‘ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے میں سفر کرتا‘اپنے گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نبھانہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی‘ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی‘ 1973ء میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقرر گیا‘ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔

معراج خالد تحریک بحالی جمہوریت میں بہت متحرک رہے اور انہوں نے کئی بار جیل کاٹی۔ جب بے نظیر بھٹو 1986ء میں ملک واپس آئیں تو معراج خالد کا شمار پارٹی کے ’انکلوں‘ میں کیا جانے لگا جنہیں بے نظیر بھٹو نے آہستہ آہستہ پارٹی کے معاملات سے دور کر دیا۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے ایک بار پھر معراج خالد کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا۔

جب صدر غلام اسحاق خان اور فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ در پردہ ملک معراج خالد کو بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم بننے کی دعوت دیتے رہے جو انھوں نے قبول نہیں کی۔

تاہم ملک معراج خالد کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے اور 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ نے انھیں لاہور سے ان کی روایتی نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا۔

اسی دوران میں ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کی سیاست سے دور ہو گئے اور انہوں نے اخوان المسلمون نامی تنظیم بنا کر لاہور کے دیہی علاقہ میں اسکول کھولنے اور انہیں چلانے پر توجہ مرکوز کرلی۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی مقرر ہو گئے۔

جب صدر فاروق احمد خان لغاری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو 1993ء میں برطرف کیا تو معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انھوں نے 3 ماہ کی مقررہ مدت میں انتخابات کرواکے اقتدار نوازشریف کے سپرد کر دیا۔

ایک مفلس و قلاش ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا ایک لمبا اور کٹھن سفر اپنے دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیراعظم بنا‘یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے کے مکان میں رہا‘ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا‘ جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا‘ جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا‘ جس کی بیوی اس کے وزارت عظمیٰ کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی پھرتی ۔ میرے عزیزہم وطنو! ملک معراج خالد تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت تھے‘ آپ 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ وفات سے قبل پاکستان کے اس عظیم شخص کے پاس نا تو کوئی بینک بیلنس تھا نا کوئی ذاتی جائداد بلکہ بیماری کا علاج تک سرکاری ہسپتال میں ہوتا رہا۔یہ تھے پاکستان کے وہ درویش صفت وزیرِاعظم جنہوں نے کٹھن حالات کا مُقابلہ کرکے ایک اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اتنا اعلیٰ منصب ملنے کے باوجود کرپشن اور لوٹ مار سے اپنا دامن بچائے رکھا۔۔ کریم اللّہ ملک معراج خالد مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور وطنِ عزیز کو ایسے ہی مُخلص حکمران عطاء فرمائے۔ آمین

معراج خالد تحریک بحالی جمہوریت میں بہت متحرک رہے اور انہوں نے کئی بار جیل کاٹی۔ جب بے نظیر بھٹو 1986ء میں ملک واپس آئیں تو معراج خالد کا شمار پارٹی کے ’انکلوں‘ میں کیا جانے لگا جنہیں بے نظیر بھٹو نے آہستہ آہستہ پارٹی کے معاملات سے دور کر دیا۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے ایک بار پھر معراج خالد کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا۔

جب صدر غلام اسحاق خان اور فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ در پردہ ملک معراج خالد کو بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد لا کر وزیر اعظم بننے کی دعوت دیتے رہے جو انھوں نے قبول نہیں کی۔

تاہم ملک معراج خالد کے بے نظیر بھٹو سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے اور 1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ نے انھیں لاہور سے ان کی روایتی نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا۔

اسی دوران میں ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کی سیاست سے دور ہو گئے اور انہوں نے اخوان المسلمون نامی تنظیم بنا کر لاہور کے دیہی علاقہ میں اسکول کھولنے اور انہیں چلانے پر توجہ مرکوز کرلی۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی مقرر ہو گئے۔

جب صدر فاروق احمد خان لغاری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو 1993ء میں برطرف کیا تو معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انھوں نے 3 ماہ کی مقررہ مدت میں انتخابات کرواکے اقتدار نوازشریف کے سپرد کر دیا۔

Tags: 'پاکستان کا وہ وزیراعظم جودودھ فروش تھا'90 کی دہائی میں سیاسیتپاکستان میں سیاستپیپلز پارٹیمعراج خالد
Previous Post

عبدالعلیم خان پنجاب اسمبلی کی 4 قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے مستعفی

Next Post

پاکستان کیسے سیمی فائنل میں پہنچے گا؟

نیا دور

نیا دور

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
پاکستان کیسے سیمی فائنل میں پہنچے گا؟

پاکستان کیسے سیمی فائنل میں پہنچے گا؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In