آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ اردو میں فہرست مرتب کرتے وقت ترتیب کے لیے جو حروف استعمال کیے جاتے ہیں ان کی ترتیب ا، ب، پ، ت کے بجائے ا، ب، ج، د ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اردو تحریر میں فہرست مرتب کرتے وقت ا، ب، ج، د کا استعمال کرنے کے تانے بانے زبان کی ابتدا سے جا کر ملتے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے حروف ابجد سے، جو موجودہ دور میں رائج زبانوں کی بنیاد ہیں۔
ابجد کس طرح بن گئے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو پیدا کرتے وقت ابجد کا سرمایہ بھی ساتھ ہی عطا فرمایا۔ اس لئے ہر ننھے بچے کی زبان سے خواہ دنیا کے کسی خطے یا کسی ملک کا ہو آں، اوں، با، تا، دا، شاں، شوں، غاں، غوں، فاں، فوں، ماں، ناں، وا وغیرہ کی آوازیں خود بخود نکلتی ہیں۔ انسان نے انہی آوازوں سے ابجد کی بنیاد ڈالی۔
ابجد کے حروف انہی آوازوں سے وضع کیے گئے ہیں جو کہ ا، ب، ج، د، ہ، و، ز، ح، ط، ی، ک، ل، م، ن، س، ع، ف، ص، ق، ر، ش اور ت ہیں۔ اس کے بعد ان آوازوں سے جو انسان کے لب و حلق سے نکلتی ہیں، دوسرے حروف بھی متعین کیے گئے۔ مثلاً ث، خ، ذ، ض، ظ، غ، پ، ٹ، چ، ڈ، ڑ، ژ، گ، آ، ں اور ء وغیرہ۔
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ حروف تہجی کی تعداد مختلف زبانوں میں مختلف ہے، مگر اُن سب کا ماخذ ایک ہی ہے۔ تعداد میں فرق ہونے کا سبب یہ ہے کہ بعض قوموں نے آواز کے باریک پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیادہ حروف بنا لیے اور بعض نے موٹے پہلو کے اعتبار سے کم حروف وضع کیے۔
آثارِ قدیمہ اور لسانیات کے ماہرین کے مطابق وہ پہلی زبان جس نے اولین ابجدی حروف وضع کیے پروٹو سیمیٹک ہے۔ حقیقتاً یہ تمام ابجد زبانوں کی ماں ہے، یعنی آج ہم جو بھی حروف پڑھتے ہیں چاہے وہ ا، ب، پ، ت اور ٹ ہوں یا ABCD وغیرہ یہ تمام حروف اسی زبان سے اخذ کیے گئے ہیں۔
اردو میں فہرست مرتب کرتے وقت ا،ب کے بعد ج، د کیوں آتے ہیں تو اس معمے کا جواب بھی یہی ابجد ہیں، یعنی فہرست کی ترتیب میں حروف ابجد لکھے جاتے ہیں۔